عنوان سوم روزِ عاشوراء امام ؑ کی عبادات کی خصوصیات عنوا نِ سوم: روزِ عاشورا آپ ؑ سے ظاہر ہونے والی صفات ، اخلاق اور عبادات کی خصوصیات میں ہے،انہیں میں ظاہر ہ اور باطنہ عبادات کا مجموعہ ہے، مکارمِ اخلاق ، مختلف آزمائشوں کا برداشت کرنا، اور اُن پر شکر کرنا،تمام عبادات کا خصوصی طور پراُس دن جمع کرنا، کہ جن کے سبب اللہ کی خاص عنایات شاملِ حال ہوئیں۔ روزِ عاشورا آپ ؑ کی صفات، اخلاق و عبادات کی خصوصیات میں وہ عبادتیں کہ جو جملہ عبادات کا مجموعہ ہیں، چاہے بدنی واجبہ ہوں یا مندوبہ، ظاہریہ ہوں یا باطنیہ، قلبیہ واجبہ ہوں یا مندوبہ، بلکہ ہر ایک کی اکمل و اشرف صورت، پس امام ؑ نے اُس دن ہر عبادت کو تمام طور سے انجام دیا،مفردات ہوں یا مرکبات ، اور جامع طور پرمکارم اخلاق اور صفات حمیدہ و پسندیدہ کو انجام دیا چاہے وہ مندوبہ ہوں یا متضادّہ۔ امتحان و ابتلاء کے عظیم مراحل کو امام ؑ نے نہ فقط تحمل کیا بلکہ صبر کی انتہائی کٹھن منزلوں سے شکر کی بالا ترین بلندیاں سر کرتے ہوئے عبادت کی اُس منزل کو پایا کہ جو تمام فضیلتوں کا مجموعہ ہے، یوں اِ س باب میں ایسے منفرد مقام کے حامل ہوئے کہ جس میں کوئی اُن کا شریک نہیں ، اِسی لئے قرآن سے وہ خطاب ملے کہ جو آپ ؑسے خاص ہیں: یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک (۱) [اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کی جانب پلٹ آ]،
--حاشیہ--
(۱)سورۃ فجر آیہ ۲۸۔۳۰ اور رضایت کے لئے خاص ہوئے: راضیۃ مرضیۃ ، اوراِسی طرح خاص عبودیت کی منزل اورخاص بہشت آپ ؑ کو عطاء ہوئی، فرمایا:فادخلی فی عبادی وادخلی جنّتی:[میرے خاص بندوں میں شامل ہو جااور خاص جنّت میں داخل ہو جا] (۱)۔ اب اِس مخصوص وجامع عبادت کو بیان کرتے ہیں، خدا کے لطف و کرم سے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ : خدا نے اپنے بندوں پر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں ،جن کی بنیاد مصلحتوںپر ہے ، مختلف درجات و اعصارکی نسبت ، چنانچہ ہر نبی و پیغمبرکے لئے راہ و شریعت مقرر فرمائی اور آخرکار آسان شریعت کو ہمارے نبی ؐ کے حوالے فرمایا۔ امام حسین ؑ نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیںاور روزِ عاشوراخود کو اللہ کے لئے قربان کردیا، پس آپ ؑ نے اُس دن ہر طرح کی عبادات انجام دیں،چاہے وہ بدنی ہوں یا قلبی، فعلیہ ہوں یا ترکیہ(یعنی مثبت و منفی)، واجبہ ہوں یا مندوبہ بلکہ تمام انواع و اقسام، مشترکات ہوں یا خصوصی امور ہوں ، حتی کہ اللہ سے خودکلی معاملہ طے کیا، اور خدا نے بھی جو کچھ ایک مخلوق کے لئے ممکن تھا، چاہے وہ الطافِ جَلیہ ہوں یا خَفیہ یا عطاء و بخشش ، سب آپ ؑ کو دے دیا۔ اِس معاملہ کی تفصیل اور اِن کابیان اخلاقی مسائل وعبادات پر موقوف ہے ، اِسے ہم فقہی ترتیب سے بیان کریں گے کہ کس کیفیت سے امام ؑ نے اِنہیں ادا کیااور پھر ہم ان کی
--حاشیہ--
(۱)سورۃ الفجر۲۹۔۳۰ جمع و ترکیب کی کچھ خصوصیات بیان کریں گے: کتاب العبادات البدنیہ الواجبہ، اوراِس میں چند باب ہیں : امام ؑ کی شبِ عاشورا ظاہری و باطنی طہارت [باب الطہارۃ الظاہریۃ] آپ ؑ نے ظاہری طور پر بھی پاک و پاکیزگی کا خیال رکھا، اور یہ آپ ؑ کی خصوصیات میں سے ہے۔ [طھارۃ باطنیۃ]،پس وضو فرمایا اپنے ہی خون سے کہ جو آپ ؑ کے قلبِ مبارک سے جاری تھااور پھر غسلِ ترتیبی فرمایا اُس خون سے کہ جو سرِ مبارک اور اعضائے مبارک سے جاری تھا۔ اور آخرکار اُس خون سے غسلِ ارتماسی کیا کہ جو شہہ رگ ِپاک سے جاری ہوا، پھر کربلا کی گرم خاک سے تیمم فرمایا، اور اپنا چہرہ خاک پر مَلتے ہوئے اپنی پیشانی خاک پر رکھی اور خدا سے جو طے تھا اُس کے مطابق تسلیم ہو گئے۔ یوں آپ ؑ کے لئے طہارت کے جمیع اقسام جمع ہوگئے،یعنی ظاہریہ، باطنیہ، اور وضو، غسل اور تیمم۔ روزِ عاشورا ،امام ؑ کی چار قسم کی نمازیں [باب الصلوٰۃ] تمام ائمہ طاہرین ؑنے نماز قائم کی ، جیسا کہ زیارتِ جامعہ میں ہے(۱)،لیکن جوچار قسم کی نمازیں امام حسین ؑنے اُس دن قائم کیں،اُن کی خصوصیت ہے:
--حاشیہ--
(۱)فقیہ ۲؍۳۰۷ باب ۱۶۶۔ عیون الاخبار۲؍۲۷۴ پہلی نماز:الوداعی نمازِ شب تھی ، جس کے لئے قوم سے اُس رات کی مہلت مانگی تھی(۱)۔ دوسری نماز:نمازِ ظہر تھی کہ جو اُس دن نمازِ خوف کے انداز میں پڑھی تھی(۲)، مگر خاص طرح سے کہ جو نہ ’ذات الرقاع‘ اور نہ ہی’ بطن النخلۃ ‘(۳)کی طرح تھی، امام ؑ کی نمازتو قصر تھی مگر کچھ اصحاب کی نماز قصر القصرتھی کیونکہ وہ نماز کے دوران ہی امام ؑ کے سامنے شہید ہوگئے تھے ۔ تیسری نماز: وہ روحِ نماز ہے کہ جو عبارت ہے نماز کے افعال و اقوال و کیفیات، چنانچہ کتاب صلوٰۃ میں یہ مذکور ہے۔ چوتھی نماز:یہ وہ نماز تھی کہ جو تکبیر، قرائت، قیام ، رکوع ، ،سجود، ؛تشہد اور مخصوص سلام پر مشتمل تھی۔۔۔ پس تکبیر اُس وقت کہی کہ جب زین سے زمین پر آرہے تھے ، قیام وہ تھا کہ جب بمشکل تمام اپنے پائوں پر کھڑے ہوئے، رکوع وہ تھا کہ جب خمیدہ کمر کے ساتھ چل رہے تھے، اور کبھی منہ کے بل گر پڑتے تھے ، قنوت میں یوں دعا پڑھی:’اللہم انت متعالی المکان۔۔برحمتک یا ارحم الراحمین‘ (ترجمہ: پروردگا را!توبلند مقام، عظیم جبروت،مستحکم تدبیر والاہے ،مخلوق سے بے نیاز، وسیع کبریائی کا مالک،ہر چیز پر قادر، جس کی
--حاشیہ--
(۱)بحار ۴۴؍۳۹۲۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۹۳۔ (۲)بحار ۴۵؍۲۱۔ لہوف ص ۴۸۔ (۳)ذات الرقاع اور بطن النخلۃ۔ دو مقامات ہیں کہ جہاں نمازِ خوف پڑھی گئی تھی، تفصیل فقہی کتب میں ہے۔ رحمت قریب، وعدہ وفا کرنے والا ،جس کی نعمت فراوان، جس کی ابتلاء بہتر ،جسے آواز دیں تو نزدیک ہے، مخلوقات پر محیط، تائبین کی توبہ قبول کرنے والا، اپنے ارادے پر قادر، جسے طلب کرے پالے، شاکروں کا مشکور، ذاکروں کو یاد رکھنے والا،تجھ سے محتاج کی طرح مانگتا ہوں، فقیر کی مانند تیری طرف راغب ہوں، خوفزدہ ہو کر تجھ سے پناہ چاہتا ہوں، غمزدہ کی طرح تیری بارگاہ میں گڑگڑا رہا ہوں، ضعیف ہو کر تجھ سے مدد چاہتا ہوں ، تجھے کافی جان کر توکل رکھتا ہوں۔ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان انصاف فرما، کہ اِنہوں نے ہمیں دہوکہ و فریب دیا،ہمیں چھوڑ دیا، ہم سے بے وفائی کی اور ہمیں قتل کیا۔ہم تیرے نبیؐ کی عترت اور تیرے حبیب محمد ؐ کی اولاد ہیں کہ جنہیں تو نے رسالت کے لئے چُنا، اور اپنی وحی کا امین قرار دیا، پس ہمارے لئے اپنے امر میں وسعت و گشائش دے اپنی رحمت سے، اے بہترین رحم کرنے والے(۱)! اور سجدہ اُس وقت کیا کہ جب امام ؑ نے مبارک پیشانی خاک پر رکھی، تشہد اور سلام کہا اور روح نے جسدِ مبارک سے مفارقت کر لی، اورسرِ مبارک پھر بلند ہوا نیزہ کی اَنی پر، امام ؑ کی تعقیبات واذکار سورہ کہف کی آیتیں تھیں کہ جو آپ ؑ تلاوت فرما رہے تھے۔ [باب الصوم] روزے کی بارہ اقسام ہیں کہ جو بعد علیٰحدہ فصل میں پیش کیا جائے گا (ان شاء اللّٰہ)۔
--حاشیہ--
(۱)مصباح المتھجد ص۷۵۹ (تیسری شعبان کے اعمال) آپ ؑ کے روز ے کی بہترین اور کامل ترین صورت یہ تھی کہ آپ ؑ نے کھانے پینے کی تمام چیزوں سے امساک کیا بلکہ قلبی و جسمی علاقات کا امساک کیا، اِسی سبب سے خدا نے بھی آپ ؑ کے لئے رسولِ ؐاسلام کے دستِ مبارک سے خاص افطاری تحفہ میں بھیجی، جیسا کہ حضرت علی اکبر ؑ نے فرمایا:’ ھٰذا جدی بیدہ کاس مذخورۃ لک‘[یہ میرے جدؐ ہاتھوں میں جام لئے آپ ؑ کے منتظر ہیں](۱)۔ [باب الجنایز:اموات کے لئے غسل وکفن، حنوط و دفن اور ان پر نماز پڑھنا واجب ہے ، مگر میدانِ جنگ کے شہید پر فقط نماز پڑھ کر اُسی کے کپڑوں میں اُسے دفن کردینا ضروری ہے، اور مستحب ہے کہ تشییعِ جنازہ ہو، چار کونے اُٹھائے جائیں، نیز مزید آداب و سنن فقہی کتابوں میں تفصیل سے ہیں، امام حسین ؑ اپنے اصحاب کے سلسلہ میں اِن واجبات کو ادا کرنے سے معذور تھے،شاید مختصر ترین واجب نماز ادا کی ہو۔ شیر خوار بچے کو دفن کرنے کی پانچ دلیلیں البتہ ، کچھ روایات کے مطابق ، اپنے شیر خوار بچے کے لئے تلوار سے قبر کھودی اور اُسے دفن کیا(۲)، شاید اِس کی وجہ اِن وجوہات میں سے ایک ہو: پہلی وجہ یہ کہ اِس کام کو انجام دے سکتے تھے۔ دوسری یہ کہ اُس معصوم کو سر کے کٹنے سے بچا لیں۔
--حاشیہ--
(۱)بحار ۴۵؍۴۴۔ مقتل خوارزمی ۲؍۳۱ (۲)بحار ۴۵؍۴۹۔ احتجاج طبرسیؒ ۲؍۲۵ (کربلا میں امام حسین ؑ کا احتجاج) تیسری یہ کہ تین دن خاک پر پڑا نہ رہے۔ چوتھی یہ کہ گھوڑوں کی سُموں کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ پانچویں یہ کہ اُس کے بدن کو کوئی اِس حالت میں نہ دیکھے۔ ہاں! امام ؑ نے جس قدر ممکن تھا اصحاب کے لئے انجام دیا، مثلاًاُن کی لاشوں کو جمع کیا، بعض کو بعض کے برابر میں لٹایا بعض کو خود بنفس نفیس لے کر آئے، اور بعض کو اٹھانے میں کوئی مل گیا تو تشییعِ جنازہ بھی کیا۔ شب و روزِ عاشورا میں بدن و مال کی زکات [کتاب الزکوٰۃ و الصدقات] : امام ؑ نے بدن و مال کی زکوٰۃ دسواں یا چوتھا حصہ نہیں دیا بلکہ جو کچھ تھا وہ سب دے دیا، یہاں تک کہ وہ پُرانا کرتا کہ جس کی کوئی قیمت نہ تھی، اور شبِ عاشورا کو کچھ حلّے غلام آزاد کرنے کے لئے عطا فرمائے جن کی قیمت ہزار دینار تھی(۱)۔ [باب الجھاد]: تمام ائمہ طاہرین ؑ نے جہاد کا حق ادا کیا ہے جیسا کہ زیارتِ جامعہ میں ہے(۲)،مگر امام حسین ؑ کے جہاد کی ایسی خصوصیت ہے کہ جو آپ ؑ علاوہ کوئی انجام نہ دے سکا، اور اِس کی تفصیل یہ ہے:
--حاشیہ--
(۱)بحار ۴۴؍۳۹۴۔ لہوف ص ۴۱۔ (۲)فقیہ ۲؍۳۰۷۔ عیون الاخبار ۲؍۲۷۴۔ امام حسین ؑ کے جہاد اور اسلام کے جہاد کے تیرہ فرق پہلا فرق:اسلام کے جہاد کی شرائط میں سے ہے کہ کفار مسلمین سے دس گُناسے زیادہ نہ ہوں، کہ ایک مسلمان دس کے مقابلے سے فرار نہ کرے، پھر جب مسلمانوں کوقوت ملی اور شوکتِ اسلام میں اضافہ ہوا تو حکم ہوا کہ ایک کے مقابلے میں دو سے زیادہ کفار نہ ہوںورنہ جہاد واجب نہیں ۔۔۔۔۔کربلا میں ایک تن کے مقابلے میں کم از کم تیس ہزار جنگ کر رہے تھے۔ دوسرا فرق: جہاد بچوں اور بوڑھوں پر واجب نہیں ۔۔۔۔۔اِس واقعہ میں جناب قاسم ؑ ، عبد اللہ بن حسن ؑ،اُس ضعیفہ کا بچہ(شاید انصاری کا بچہ مراد ہو : مترجم حسینی عفی عنہ) اور اِسی طرح بہت بوڑھا مجاہد جیسے حبیب بن مظاؓ ہر بھی تھے۔ تیسرا فرق: ہلاکت کا خوف نہ ہو۔۔۔۔۔یہاں امام ؑ کو یقین تھا کہ مارے جائیں گے، اپنے اصحاؓ ب کو خبر دے دی تھی کہ کل تم سب مارے جائو گے(۱)، فقط میرا فرزند علی بچے گا۔ چوتھا فرق: ظالموںنے آپ ؑ کے ساتھ وہ برتائو کیا کہ جوجہاد میں کفار کے ساتھ کرنے کو اللہ نے منع فرمایا ہے،جیسے محترم مہینوں میں لڑائی کرنا۔۔۔۔۔اور اُن لوگوں نے ماہِ محرم میں لڑائی کی کہ جو محترم مہینہ ہے اور امام ؑ کو مجبوراً جنگ کرنی پڑی۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۲۹۸۔ خرائج ۳؍ ۸۴۷۔ پانچواں فرق: کفار کے عورتوں اوربچوں کوقتل کرنے کی ممانعت کی ہے۔۔۔۔۔امام ؑ کے کچھ بچے شہید کئے گئے، ایک وہ بچہ کہ جب امام ؑ نے (درِ خیمہ پر )بچے کو مانگا کہ بوسہ دیں ، کہ ناگہاں ایک تیر اُسے لگا اور وہ بچہ شہید ہو گیا (۱)۔ دوسرا وہ بچہ کہ جسے امام ؑ دشمنوں کے سامنے لے گئے کہ شاید وہ اُسے پانی پلا دیں مگرپانی کے بجائے تیر (سہ شعبہ) اُس کی گردن پر لگا (۲)۔ چھٹا فرق: اگر کافر مبارز طلبی کرے تو اُس پر ایک دفعہ حملہ نہیں کیا جائے۔۔۔۔۔دشمنوں نے پہلے شرط کی کہ ایک ایک میدان میں آکر لڑے، مگر پھر خود اس کی مخالفت کرکے چاروں جانب سے حملہ کیا، کوئی تلوار سے تو کوئی نیزے سے۔۔۔(۳) ساتواں فرق: لڑائی کی ابتداء ظہر سے ہو تاکہ جنگ زیادہ طولانی نہ ہو ، رات حائل ہوجائے تاکہ سب کچھ ختم نہ ہو جائے۔۔۔۔۔اُنہوں نے اِس کی بھی مخالفت کی طلوعِ آفتاب سے لڑائی شروع کر دی(۴)۔ آٹھواں فرق:کافر کا سر کاٹنے کے بعداُسے کہیں اور منتقل نہ کریں (۵)۔۔۔۔۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۴۶۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۱۱۲ (۲) تذکرۃالخواص ص ۲۲۷ ۔ نفس المھموم ص۳۵۰ (۳) بحار ۴۵؍۵۴ ۔ لہوف ص ۵۴۔ (۴) بحار ۴۵؍۴۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۹۹۔ (۵) مبسوطِ طوسی ؒ ۲؍۳۳ ۔ شرائع ص ۹۰۔ جبکہ امام ؑ کا سرِ مبارک اصحاؓب کے سروں کے ہمراہ کوفہ و شام تک لے جایا گیا۔ نواں فرق: اگر کافر قبیلہ کا بزرگ ہو تو اُس کا لباس وغیرہ نہیں اُتارتے، جیسا کہ حضرت علی ؑ نے عمرو بن عبدودّ کو قتل کیا کہ جو کُلّ کفر تھا اور قیمتی و بینظیر زرہ کا مالک تھا، مگر آپ ؑ نے توجہ نہیں فرمائی ، کسی نے پوچھا کہ آپ نے اُس کی زرہ کیوں نہیں لی؟ فرمایا: وہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا مجھے مناسب نہیں لگا کہ میں اُس کی حرمت پامال کروں (۱)، جب عمروکی بہن نے یہ دیکھاتو سمجھ گئی کہ اُس کا قا تل علی ؑ ہیں تو خوش ہوگئی ، دو وجہ سے : ایک یہ کہ قاتل بھی عظیم ہے اور دوسرے یہ کہ اُس کی حرمت کا پاس رکھا، تو کہا: شعر کا ترجمہ: اگر عمرو کا قاتل کوئی اور ہوتا تو میں تجھ پر تاابد آنسو بہاتی لیکن اُس کا قاتل وہ ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور جس کا باپ شہرِ(مکہ)کا سردار کہلاتا تھا(۲)۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ اگر اُس کا قاتل کسی چرواہے کا بیٹا ہوتا، کہ جو مبروص اور بدبخت و حرامزادہ ہوتا(شمر ملعون کی طرح )تو وہ کیا کرتی؟ دسواں فرق: کافرکو مثلہ کرنا جائز نہیں (مثلہ یعنی اعضاء و جوارح کاٹنا )، یہاں تک کہ حضرت علی ؑ نے اپنے قاتل ابن ملجم ملعون کو بھی مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھاکہ جو اولین و آخرین میں سب سے زیادہ شقی تھا (۳)۔ یہ بات کافروں اور بت پرستوں میں مسلمانوں
--حاشیہ--
(۱) بحار ۲۰؍۲۵۷۔ ارشاد ِ مفید ؒ ۱؍۹۲ (۲) بحار ۲۰؍۲۶۰ ۔ ارشادِ مفید ؒ ۱؍۹۵ (۳) مناقب ۲؍۹۵ کی نسبت بھی ثابت تھی، ٍ چنانچہ جب ابوسفیان حضرت حمزہ ؓ کے لاشے کے پاس سے گزراتو نزدیک آیا اور اپنا نیزہ آپ ؓ کے منہ میں گاڑ کے بولا:اے نافرمان ! چکھو، مگر جونہی اُس کی نظر آپ ؓ کے جسم پر پڑی اُس نے دیکھا کہ انگلیاں کٹی ہوئی ہیں ، پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکالا ہوا ہے ،تو اُس نے چیخ ماری کہ’ اے محمدؐ کے ماننے والو!تمہاری لاشوں میں مثلہ ہے ، خدا کی قسم میں نے اِس کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی میں اِس سے راضی ہوں(۱)۔۔۔۔۔لیکن ابن زیاد ملعون نے مثلہ سے بدتر حکم دیا، ابن سعد ملعون کو لکھا کہ جب حسین ؑ کو قتل کر دو تو اُس کے سینے اور پیٹھ پر گھوڑے دوڑائو، مجھے معلوم ہے کہ اس کا کوئی نقصان اُس کو نہیں ہوگا مگرجو کہا ہے اُس پر عمل ہو(۲)۔ گیارہواں فرق: جب کفار کو قتل کرو اور اُن کی عورتوں کو اسیر کرو تواُن کی لاشوں کے سامنے سے ہرگز نہ گزارو۔ جنگِ خیبر میں جناب بلال ؓ نے صفیہ کو خیبریوں کے لاشوں کے سامنے سے گزارا تو وہ کانپنے لگی، اُسے رسولؐ خدا کے پاس لائے تو آپؐ نے بلاؓل کو ڈانٹا(۳)۔۔۔۔۔لیکن آلِ محمد ؑ کے اسیروں کو لاشوں کے سامنے ہی سے نہیں گزارابلکہ اُن کے سر ساتھ ساتھ آنکھوں کے سامنے رکھے یہاں تک کہ شام پہنچے(۴)۔ بارہواں فرق:اگر کافراسیرعورتیںبادشاہ کے خاندان کی ہوں تواُنہیں خرید و
--حاشیہ--
(۱) بحار ۲۰؍۹۷ ۔ اعلام الوریٰ ص ۸۴ (ط اسلامیہ) (۲) بحار ۴۵؍ ۱۸۰ ۔ کامل الزیارات باب۸۸ص ۲۶۱۔۲۶۶ (۳) بحار ۲۱؍۲۲ ۔ اعلام الوریٰ ص۱۰۰۔ (۴) بحار ۴۵؍ ۱۵۴۔۱۵۶۔ امالی صدوؒق مجلس ۳۱ص۱۴۱ فروخت کے لئے بازار میں لایا نہیں جاتا، بیٹھکوں میں لایا نہیں جاتا اور اُن کے چہرے کھولے نہیں جاتے۔۔۔۔۔امام باقر ؑ سے ایک روایت دیکھی ہے کہ جب اِن قیدیوں کو شام لایا گیا، تو اہلِ شام آپس میں کہتے تھے : کہ ہم نے ان سے زیادہ خوبصورت اسیرنہیں دیکھے(۱)، اور مجلسِ یزید ملعون میں ایک شامی شخص نے اُس سے کہا:اے یزید یہ کنیز مجھے بخش دے (۲)، یہ جملہ خرید و فروخت کے لئے بازار میں لانے سے زیادہ بدتر ہے۔ تیرہواں فرق: امر بالمعروف اور نھی عن المنکرکے باب میں شرط ہے کہ نقصان سے محفوظ ہو۔۔۔۔۔امام حسین ؑ کو یقین تھا کہ نقصان ہوگا پھر بھی آپ ؑ نے اقدام کیا اور یہ امام ؑ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ہدایت و ارشاد کے لئے امام ؑکے خاص اقدامات ہیں جیسا کہ آپ ؑ نے اپنے قاتل کو دیکھ کرتبسم فرمایا اور اُسے وعظ کیا(۳)۔ آپ ؑ کے مبارک سر نے اسلام کی جانب راہب کی رہنمائی فرمائی (۴)۔ کتاب العبادات المستحبہ روزِ عاشورا امام ؑ کا پانی پلانا [ باب سقی الماء] پانی پلانا مستحب مؤکّدہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں حتّٰی کفار اور جانوروں کو پلانا بھی واجب ہو جاتا ہے، اور اِس کا ثواب قیامت میں دوسرے اعمال
--حاشیہ--
(۱) و (۲) بحار ۴۵؍ ۱۵۴۔۱۵۶۔ امالی صدوؒق مجلس ۳۱ص۱۴۱۔ (۳) بحار ۴۵؍ ۵۶۔ مقتل خوارزمی ۲؍۳۶۔ (۴) بحار ۴۵؍۱۸۵۔ خرائج ۲؍۵۷۹۔ سے پہلے دیا جائے گا(۱)۔امام ؑ نے کئی طریقوں سے یہ عمل انجام دیا، چنانچہ دشمنوں کو پانی پلایا بلکہ اُن کے جانوروں تک کو سیراب کیا(۲)، ذوالجناح کو کہا کہ :پانی پی لے(۳)، عورتوں اور بچوں کے لئے مختلف طریقوں سے پا نی مانگا، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے کنوأں کھودا(۴)،اپنے نمائندے کوبھیج کر اوراپنی زبان سے اہلِ شر سے پانی مانگا(۵)، یہاں تک کہ اپنے شیرخوار کے لئے ایک قطرہ کی خواہش کی(۶)۔ شب اورروزِ عاشورامیںامام ؑ کا کھانا کھلانا [باب الاطعام] تنگی کے وقت میں یتیم و مسکین کوکھانا کھلانابہترین اعمال میں سے ہے اور مشکل مرحلہ سے نجات کا سبب بنتا ہے مگر امام ؑ روزِ عاشورا یہ عمل تو انجام نہ دے سکے کیونکہ آپ ؑ پر چاروں طرف سے سختی تھی اور کھانا بالکل ہی ختم ہو چکا تھا، اِسی لئے امام سجاد ؑ فرماتے تھے:رسولِ خدا ؐ کے فرزند بھوکے پیاسے شہید کئے گئے(۷)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۹۳؍۱۷۳۔ ثواب الاعمال ص۱۶۸۔ (الکافی ۴؍۵۷۔ من لا یحضرہ الفقیہ ص ۱۶۴ کتاب الزکاۃ) (۲) بحار۴۴؍۳۷۶۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۷۹ (۳) بحار ۴۵؍۵۱۔مناقب ۳؍۲۱۵ (۴) و (۵) بحار ۴۴؍۳۸۷ و ۳۸۸ (۶) بحار ۴۵؍۵۱۔ لہوف ص۵۲ (جملہ : ’ اپنے شیرخوار کے لئے ‘ اصلی عربی کتاب میں نہیں ہے)۔ (۷) لہوف ص ۹۲۔ تشنگی کا احساس بہت شدید ہونے کی وجہ سے بار بار اِس کا ذکر ہوا، اور آپ ؑنے بھی پانی مانگاکھانا نہیں مانگا، کیونکہ اِس میں ایسی ذلت ہے کہ جو صاحبانِ غیرت پسند نہیں کرتے بلکہ اگر بغیر مانگے بھی کوئی دے تو نہیں لیتے ، اِسی لئے جب کوفیوں نے کھجور اور اخروٹ قیدی بچوں کو دئیے تو بی بی ام کلثوم ؑ نے چیخ کر اُن سے کہا کہ صدقہ ہم پر حرام ہے، اوروہ بچوں کے منہ سے یہ نکال کر پھینکتی تھیں(۱)، کیونکہ اِ س حالت میںکھانا کھلانا صدقہ ہی تھا کہ جو اہانت اور ذلت کے ساتھ تھا، اِسی لئے یہ اُن کے لئے قبول کرنا حرام تھا،چاہے وہ (واجب) زکوٰۃ کے طور پر نہ ہو۔ شب اور روزِ عاشورا میں امام ؑ کا محبت آمیز سلوک [باب الملاطفۃ] اپنی اولاد و رشتہ داروں سے محبت سے پیش آنا، خصوصاً بیٹیوں سے بہت فضیلت رکھتا ہے اور امام ؑ نے بہترین طور سے اِس کا اظہار فرمایاکہ جناب سکینہ ؑ کو پیار کیا ، سر پر ہاتھ پھیرا، یوں اُنہیں تسلی دی مگر اُس معصوم ؑ بچی کے غم و اندوہ میں اِس سے اضافہ ہی ہوا(۲)۔ شب اور روزِ عاشورا میں امام ؑ کادشمن کو دور کرنا [باب رد العاریۃ و اِعانۃ اللہیف] دوست سے دشمن کو دور بھگانا اور مسلمانوں کی فریاد کو پہنچنا صفاتِ حمیدہ اوراوصافِ پسندیدہ میں سے ہے، اورامام ؑ نے جس طرح بھی ممکن ہوا
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۱۱۴۔ (۲) مناقب ۳؍ ۲۵۷ ۔ منتخب طریحی ۲؍۱۳۳۔ اپنے اہل و عیال سے دشمنوں کو دور کیایہاں تک کہ فرمایا: اے قوم !مجھ سے لڑو اور میرے حرم سے سروکار نہ رکھو(۱)، اور یوں بہترّ(۷۲) اصحاب کی فریاد کے وقت پہنچے، اور ستائیس (۲۷) اہلِ بیت ؑ کے افراد کے پاس بھی گئے، جبکہ بعض شہیدوں کو اُس کا کچھ فائدہ نہ ہوا، جیسے جناب ’قاسم ؑ ‘کے سلسلے میں ملتا ہے ، کہ جو اپنے وقت میں بیان ہوگا(انشاء اللہ )، یہ کہ فرمایا: ’سخت ہے چچا پر کہ تم فریاد رسی کے لئے بلائو اور تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے‘ (۲)۔ شب اور روزِ عاشورا میں امام ؑ کاتسلّی دینا [باب ادخال السرورفی قلب المؤمن وزیارتہ]، کہ جو بہترین عمل ہے، اور امام ؑ نے اپنی پوری کوشش کی کہ اصحاب و اہلبیت اور خواتین کو کسی نہ کسی طرح سے تسلّی دیں اور انہیں خوش کریں، مگرزمینِ کربلا خود زمینِ کرب وبلا ہے اور بالذات روزِ عاشورا بھی روزِ غم و اندوہ ہے، اِ س لئے انہیں کوئی سرور حاصل نہیں ہوا، البتہ زیارت مختلف عنوان سے ہوئی۔ شب اور روزِ عاشورا میں امام ؑ کا عیادت کرنا [ باب عیادۃ المریض]،جس کا ثواب بہت زیادہ ہے، اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ڈانٹے گا کہ جب میں مریض تھاتو کیوں میری عیادت کو نہیں آئے ؟!لوگ کہیں گے : تو ہر مرض و علّت سے پاک ہے ، آواز آئے گی: کہ فلاں مومن مریض ہوا تو تم
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۵۱ ۔ لہوف ص ۵۲۔ (۲) بحار ۴۵؍۳۵ ۔ لہوف ص۵۰۔ نے عیادت نہیں کی (۱)۔۔۔۔۔امام ؑ نے مریضوں اور زخمیوں کی عیادت فرمائی اور مختلف لطف فرمائے ، یہاں تک کہ اُس سیاہ پوست اور ترکی غلام کو مطمئن کیا۔ چاہتے تھے اپنے بیٹے علی اکبر ؑ کی عیادت کریں مگرانتہائی ادب کے سبب اُنہوں نے آواز ہی نہ دی، لیکن آخرکار آواز دی اور امام ؑ پہنچے ،وہ شہید ہو چکے تھے، آپ ؑ نے ایک چیخ ماری کہ : اے بیٹا ، تجھے بھی قتل کر دیا (۲)۔۔۔ ہاں البتہ جس وقت میدانِ جنگ میں جا رہے تھے اُس وقت اپنے بیٹے حضرت سجاد ؑ کی عیادت فر مائی اور اُن کا حال پوچھا، عجیب بات یہ ہے کہ عیادت کرنے والا مریض سے پہلے ہی انتقال کر گیا، اِ س عیادت کی تفصیل شہادت کے ذکر میں آئے گی (انشاء اللہ )۔ شب اور روزِ عاشورا میں امام ؑ کا ذکر و تلاوت کرنا [باب التلاوۃ ، الذکر و الدعاء]،امام ؑ کو کتابِ خدا کی تلاوت کا روز وشب شدید شوق تھا، چنانچہ اِسی عبادت کے لئے شبِ عاشورا دشمنوں سے ایک رات کی مہلت بھی مانگی(۳)۔اُ س رات امام ؑ کی عبادت، تلاوت اور مناجات کوسن کر ابن سعد ملعون کی فوج کے تیس لوگوں نے ہدایت پاکر امام ؑ کی طرف آگئے اور درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے (۴) ۔ آپ ؑ جب سے قوم کے سامنے کھڑے ہوئے اور جب تک کہ آپ ؑ کا سرِ مبارک نیزہ پرنہیں
--حاشیہ--
(۱) وسائل الشیعہ ۲؍۶۳۵۔ امالی طوسی ۲؍۲۴۲۔ (۲) بحار ۴۵؍۴۴ ۔ لہوف ص ۴۹۔ (۳) بحار ۴۴؍۳۹۲ ۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۹۳۔ (۴) بحار ۴۴؍۳۹۴ ۔ لہوف ص ۴۱۔ عقد الفرید ص ۴؍۳۷۹ ، ۳۸۰۔ چڑھادیا گیا،امام ؑ مسلسل قرائت قرآن میں مشغول رہے اور سرِ پاک نیزہ پر بھی سورۃ کہف کی تلاوت کرتا رہا، ہر حالت میں ذکرِ الٰہی فرماتے رہے بلکہ امام ؑ کے تمام اقوال، افعال، حرکات وسکنات نو یں محرم کی شام سے عصرِ عاشورا تک ذکرِ خدا تھے، عہدِ الٰہی کی یاد تھی تاکہ امانت کو ادا کر سکیں، یہاں تک غذا کھانا جیسے انسانی کاموں میں سے کسی میں مشغول نہ ہوئے، اور مسلسل ذکرِ الٰہی سے زبان تر تھی، اور جب کامِ دہن خشک ہو گیا تھا توشب کی ابتداء سے صبح تک مناجات میں مشغول تھے کہ یہی وہ وجہ تھی کہ جس کے لئے دشمن سے ایک رات کی مہلت مانگی تھی۔صبح کے شروع ہی میں یہ دعاء مانگی:ــ’ اللھم انت ثقتی فی کل شدۃ ،وانت لی فی کل امر نزل بی و عدۃ، کم من کرب یضعف منہ الحیلۃ و یخذل فیہ الصدیق، و یشمت فیہ العدو، انزلتہ بک و شکوتہ الیک، ففرجتہ‘۔ [ ترجمہ:خدایا!ہر غم و اندوہ میں تو ہی میری پناہ ہے ، اور ہر سختی میں مایہ ٔ امید ہے، اور جو بھی مشکل مجھ پر پڑی تو میرا سہارا بنا، کتنے ہی غم ایسے ہیں جن سے دل کمزور اور تدبیر کے راستے محدود ہو جاتے ہیں، جس میں دوست چھوڑ جاتے ہیں، اور دشمن شماتت کرتے ہیں، میں تیرے حضور شکوہ کرتا ہوں تو اُسے تو ہی آسان کرتاہے (۱)۔] آپ ؑ کی آخری دعاء اُس وقت تھی کہ جب خاک پر سجدہ میں تھے(اللہم انت متعالی۔۔۔) جو کہ پہلے مکمل گزر چکی ہے۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۴۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۹۹ کتاب العبادات القلبیۃ و ا لصفات الحمیدۃ جان لو کہ امام حسین ؑ نے اُس دن مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کئے، سو پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ بیان کریں ، چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ انبیاء و رسل کے خصائل میںسے ہیں (۱)، جن کی تعداد بارہ (۱۲) ہے: پہلی صفت ’یقین ‘ہے، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفس کو دنیا سے کنارہ کش کر دیں، اور یہ صفت روزِ عاشورہ اما م ؑ میں جلوہ افروز تھی، کہ جب آپ ؑ مدینہ سے باہر نکلے اور کربلا پہنچے، اپنے بھائی محمد بن حنفیہ اور بقیہ بنی ہاشم کو یوں لکھا:کہ یہ خط حسین بن علی ؑ کی جانب سے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور اُن کے ساتھ جو بنی ہاشم ہیںاُن کے نام:’ہاں بالکل!گویا جو دنیا ہے وہ کچھ نہیں اور جوآخرت ہے وہی ہمیشہ کے لئے ہے(۲)، اور یہ وہ کلام ہے کہ جو دنیا سے قطع تعلق کرنے اور آخرت سے دل وابستہ کرنے کے معنٰی میں ہے۔ دوسری صفت’ رضا‘ہے ،امام حسین ؑ اِس کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ جب آپ ؑ مکہ سے حرکت کر رہے تھے فرمایا: کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ نواویس و کربلا کے درمیان صحرائی بھیڑیئے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں ، بیشک ہم اہلبیت ؑ کی مرضی وہی ہے جو خدا کی مرضی ہے(۳)۔
--حاشیہ--
(۱) وسائل الشیعہ ۱۱؍۱۵۵ ۔ اصول کافی ۲؍۵۶ (۲) بحار ۴۵؍۸۷ ۔ کامل الزیارات باب ۲۴ص۷۵ (۳) بحار ۴۴؍۳۶۷ ۔ لہوف ص ۲۶ تیسری صفت’ سخاوت‘ہے، امام ؑ اِس صفت میں بھی اُس مقام پر تھے کہ جو کچھ مال ودولت اور اس کے علاوہ سب ہی راہِ خدا میں دے دیا۔ چوتھی صفت’ شجاعت‘ہے،اور امام ؑ کو رسولِ اکرم ؐ سے ملا تھا ، جیسا کہ روایت میں آیا ہے(۱)، اُس دن امام ؑ سے ایسی شجاعت ظاہر ہوئی کہ جو ضرب المثال بن گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنے بابا ؑ سے زیادہ شجاع تھے مگر یہ ضرورکہہ سکتا ہوں کہ امام علی ؑیا کسی اور سے ایسی شجاعت ظاہر نہ ہوئی کہ جو آپ ؑ سے ظاہر ہوئی۔ عبد اللہ بن عمار کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں آپ ؑ سے بڑھ کر کوئی قوی دل نہیں دیکھا کہ جس کے چاروں طرف بے پناہ دشمن ہوں اور جس کی اولاد، دوست و احباب سب مارے جا چکے ہوں، آپ ؑ اسی حال میں دشمن پر حملے کر رہے تھے اور وہ تیس ہزار سے زیادہ تعداد میں تھے مگر اُن کے سامنے سے فرار کررہے تھے اور پتنگوں کی مانند پراگندہ ہو رہے تھے(۲)، خود اِس طرح کثیر تعداد لشکر پر حملے کرنا خاص قوتِ قلب کا اثر ہے کہ جو کمالِ شجاعت کے علاوہ رعب و دبدبہ کا اظہار تھا کہ جس سے وہ لوگ فرار کررہے تھے۔ اطمینانِ قلب اور حلم امام ؑ کی صفات میں سے ہیں پانچویں صفت ـ’اطمینانِ قلب‘ ہے،امام حسین ؑ پر جیسے جیسے سختیاں بڑھ رہی تھیںویسے ویسے آپ ؑ کے اطمینانِ قلب اور وقار میں اضافہ ہو رہا تھا اورچہرے کی چمک
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۳؍۲۶۳ ۔ خصال ۱؍۷۷ ۔ مناقب ۳؍۱۶۵۔ (۲) بحار ۴۵؍۵۰ ۔ مثیر الاحزان ص ۵۴ ۔ تاریخ الطبری ۵؍۲۲۸ ۔ لہوف ص ۵۱۔ دمک افزوں ہور ہی تھی (۱)۔ چھٹی صفت ’نرم دلی‘ہے،یہ صفت بھی آپ ؑ میں بحدِکمال موجود تھی کہ تمام اہلبیت ؑ اور اصحاب سے نرم دلی کے ساتھ پیش آتے اور کوشش کرتے کہ سب کے حقوق کی رعایت کریں ، اسی وجہ سے آپ ؑ کے مصائب میں اضافہ ہوتا تھا، مثلاً جب دیکھا کہ بھتیجا جنگ کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ یتیم پریشان حال بیٹھا ہے تواور چاہتا ہے کہ موت کی آغوش میں جائے اِس قدر گریہ فرمایا کہ بیہوش ہو گئے(۲)، پس جب اُسے اِس حال میں دیکھا ہوگا کہ زخمی خاک پر پڑا ہے اور اس کا بدنِ مبارک گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوچکا ہے تو امام ؑ کا کیا حال ہوا ہوگا۔ ساتویں صفت ’حلمـ‘ ہے، امام ؑ میں یہ صفت بھی انتہائی حدتک تھی اتنی مصیبتوں ، اذیتوں اور زخموں کے باوجود آپ ؑ نے کسی کو اُس وقت تک بددعا نہ دی جب تک کہ اُس نے امام ؑ کا دل زخمی نہیں کیا اور تحمل کی حد سے گزر جائے، یہاں تک کہ مالک بن بسر (یانسر) کندی ملعون نے جب تلوار سے امام ؑ پر حملہ کیا تو بھی اسے کچھ نہ کہا مگر جب اُس نے گالی دی تب امام ؑ نے اُسے نفرین اور بددعا دی(۳)،کیونکہ یہ ہلکاپن تھا کہ جسے قبول کرنا ذلت کا سبب تھا اورامام ؑ ’ابی الضیم‘ تھے یعنی ذلت قبول نہیں تھی، جیسا کہ فرمایا:’الموت خیر من
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۲۹۷ ۔ معانی الاخبار ص ۲۸۸ (۲) بحار ۴۵؍۳۴۔ (۳) بحار ۴۵؍۵۳ ۔ مثیر الاحزان ص۵۵ رکوب العار (۱)‘ [یعنی موت ننگ وعار کے قبول کرنے سے بہتر ہے]۔ امام کا حُسنِ خلق، مروّت، غیرت ، قناعت اور صبر آٹھویں صفت ’حُسنِ خلق ‘ہے، امام ؑ نے شدید مصیبت اور حواس باختگی کے حالات میں بھی دوست اور دشمن کے ساتھ ایساحسنِ خلق، لطف اور مہربانی کا برتائو کیا کہ تعجب ہے ۔ نویں صفت’ مروّت‘ ہے، اس کا کمال اُس وقت ظاہر ہوا کہ جب دشمن کے پورے لشکر کو سیراب کیا (۲)، جنوں کی مدد قبول نہ کی(۳)، تعجب یہ ہے کہ جب شمر ملعون خیمہ کے نزدیک آیا کہ کچھ بولے تو ایک صحابی نے کہا کہ مولیٰ آپ اجازت دیں تو اُسے تیر کا نشانہ بنائوں، آپ ؑ نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ: میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا(۴)۔ دسویں صفت ’غیرت‘ ہے، اپنی نسبت یا اپنے اہل و عیال کی نسبت ،یہ بھی اپنے عروج پہ تھی، اپنی نسبت تو اُن کے اقوال و افعال سے ظاہر ہے ، ایک یہ ہے کہ جو دل زخمی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جب صالح بن وہب ملعون کی ضربت سے زین پر سنبھل نہ سکے اور زمین پر تشریف لائے تو شدتِ غیرت سے اٹھے پھر زخم لگے تو کھڑے نہ ہو سکے تو زمین پر بیٹھ گئے ، پھر بھی ملعونوں نے اُنہیں اس حال میں نہ چھوڑا تو کبھی بیٹھتے تھے کبھی گر جاتے تھے(۵)،اور
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۵۰ ۔ لہوف ص۵۱۔ (۲) بحار ۴۴؍۳۷۶ ۔ ارشادِ مفیدؒ ۲؍ ۷۹۔ (۳) بحار ۴۴؍۳۳۰ ۔ لہوف ص ۲۹۔ (۴) بحار ۴۵؍۵ ۔ ارشادِ مفیدؒ ۲؍۱۰۰۔ (۵) بحار ۴۵؍۵۴۔۵۵ ۔ لہوف ص ۵۴۔ یہ سب اس لئے تھا کہ لوگ گرا ہوا دیکھ کر شماتت نہ کریں۔ البتہ اہل وعیال کی نسبت سے بھی اپنی تمام کوششیں مبذول رکھیںجیسے حفاظت کے لئے خندق کھودی اور اس میں آگ جلادی (۱)، اور ایک موقع پر دشمن سے فرمایا کہ: ’اقصدونی بنفسی و اترکوا حرمی‘(۲) [ترجمہ: میرے حرم کو چھوڑ دو میری طرف آئو]، یہاں تک کہ اُس پیاس کے عالم میں جب ایک بار پانی حاصل کرنے پر قدرت تھی اور چلّو میں اسے لے کر منہ کے نزدیک لے کر گئے تو کسی شقی نے چیخ کر کہا :اے حسین! تم پانی پی رہے ہو جبکہ تمہارے خیموں پر حملہ ہو چکا ہے، اور امام ؑ نے پانی پھینک دیا(۳) ۔ گیارہویں صفت ’قناعت ‘ ہے، امام حسین ؑ نے اتمامِ حجت کی غرض سے اُن لوگوں سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو تو میں اسلامی حدود میں سے کسی سرحد کی طرف چلا جائوں، مگر وہ نہیں مانے(۴)،اِس دنیا سے ایک پرانے کپڑے پر قناعت کیا مگر اُسے بھی بدن پر رہنے نہیں دیاگیا۔ بارہویں صفت’ صبر‘ ہے، اوریہ امامت کی بنیاد ہے اِس کا ثواب بھی اسی سے وابستہ ہے، چنانچہ کلامِ الٰہی میں ہے کہ فرمایا: ’ وجعلناہم ائمۃ یہدون بامرنالما صبروا‘ [ترجمہ:اور ہم نے انہیں امام و رہنما بنایا کہ وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں](۵)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۴ ۔ ارشادِ مفیدؒ ۲؍۹۸ ۔ (۲) بحار ۴۵؍۵۱ ۔ لہوف ص ۵۲۔ (۳) بحار ۴۵؍۵۱ ۔ مناقب ۳؍۲۱۵۔ (۴) بحار ۴۴؍۳۸۹ ۔ ارشادِ مفیدؒ ۲؍۸۹۔ (۵) سورۃ انبیاء : آیت ۷۳۔ ’وجزاہم بما صبروا جنۃ وحریراً ‘ [ترجمہ:اور ان کے صبر کااجر جنت اور ریشم کے لباس ہیں](۱)۔ امام صادق ؑسے مروی ہے کہ اللہ نے شبِ معراج رسولِ گرامی ؐ پر وحی فرمائی کہ میں تم سے تین چیزوں سے امتحان لوں گاتا کہ تمہارا صبر آشکار ہو جائے، آپ ؐ نے عرض کیا کہ میں تیرے حکم پر سرِ تسلیم خم کرتاہوں اور تجھ ہی سے صبر کی توفیق چاہتا ہوں، وحی آئی کہ: اول: اپنی امت کے فقراء کو خود پر ترجیح دو، عرض کی : قبول ہے اور صبر کروں گا۔ دوم: اپنی قوم سے اذیت اٹھائوگے اور جھٹلائے جائوگے، عرض کی: قبول ہے اور صبر کروں گا۔ سوم: تمہارے اہلبیت ؑ پر آنے والے مصائب پر صبر کروگے، تمہارے بھائی علی ؑ کا حق غصب کیا جائے گااور اس پر ظلم و ستم ہوگا، تمہاری بیٹی کو اس کے ارث سے محروم کیا جائے گا ، اسے اذیت دی جائے گی، حمل کی حالت میں اسے ماریں گے ، اس کے گھر میں زبردستی داخل ہوںگے اور اُس کا احترام نہیں کریں گے۔تمہارے بیٹے حسن ؑکو زہر سے شہید کریں گے، اُسے زخم لگائیں گے اور اس کا مال و اسباب لوٹ لیں گے۔اور تمہارے بیٹے حسین ؑ کو بلائیں گے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور جب وہ جائے گا تو یہی لوگ اُسے بیدردی سے قتل کردیں گے، اُس کی اولاد اور اصحاب کو شہید کریں گے اور اُس کے گھر والوں کو اسیرکرکے لے جائیں گے، آپ ؐ نے عرض کی: میں تسلیم ہوں اور تجھ سے صبر کا طالب ہوں(۲)۔
--حاشیہ--
(۱) سورۃ الانسان : آیت ۱۲۔ (۲) بحار ۲۸؍۶۱ ۔ کامل الزیارات باب ۱۰۸ ص ۳۳۲ ؍۳۳۵۔ رسولِ اسلام ؐ کا حسین ؑ پر گریہ مؤلف کہتا ہے کہ آپؐ نے تما م امور پر صبر فرمایا مگر حسین ؑ پر گریہ فرمایا، چونکہ یہ صبر سے منافات نہیں رکھتا بلکہ شفقت و نرم دلی کا مظہر ہے، کہیں بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ ؐ نے اپنے اہلبیت ؑ کے کسی اور فرد کے مصائب کا ذکر کرکے اس پر گریہ کیا ہو، مگر جب بھی حسین کو دیکھتے یا ذکر کرتے تو روپڑتے تھے، اور علی ؑ سے فرماتے : اسے اٹھا کے تھامو اور پھر آپ ؐ حسین ؑ کے گلے کے بوسے لیتے جاتے اور روتے جاتے، جب پوچھا جاتا کہ آپ ؐ گریہ کیوں کر رہے ہیں ؟فرماتے : تلواروں کی جگہ کو چوم رہاہوں (۱) ، کبھی حسین ؑ کو خوش دیکھتے تو گریہ فرماتے ، جب مغموم پاتے تو روتے، نیا لباس پہنے دیکھتے تو گریہ کرتے(۲)، یہی حال جناب امیر ؑ اور بی بی فاطمہ ؑ اور امام حسن ؑ کا تھاکہ سب روتے تھے۔ امام حسین ؑ نے وداع کرتے ہوئے اپنی آخری وصیت اہلبیت ؑ کو فرمائی کہ صبر کرنا، چہرے پر خراش نہ ڈالنا، گریبان نہ پھاڑنا اور واویلا نہ کہنا(۳)، لیکن گریہ کرنے سے تمہیں منع نہیں کرتا، امام ؑ کی بیٹی سکینہ ؑ نے جب گریہ کیا تو کہا میری زندگی میں مت رو! چنانچہ فرمایا: لاتحرقی قلبی بدمعک حسرۃ مادام منّی الروح فی جُثمانی فاذا قتلت فانتِ أولی بالذی تأتینہ یا خیرۃ النسوان
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۲۶۱ ۔ کامل الزیارات باب ۲۳ ص۷۰۔ (۲) بحار۴۴؍۲۴۶۔ (۳) بحار ۴۵؍۴۷ ۔ منتخب طریحی ۲؍۱۳۴۔ ترجمہ: جب تک میں زندہ ہوںاپنے پُردرد اشکوں سے میرے دل میں آگ نہ لگائو، جب میں مارا جائو ںتوبیشک تم مجھ پر گریہ کے لئے زیادہ مستحق ہو، اے بہترین خاتون!(۱)، آںحضرت ؑ کے صبر کو تو ملاحظہ کرو کہ فرشتے اُس پر حیران ہیں، جب امام ؑ خاکِ گرم پر گرے،آپ ؑ کے تمام اعضاء تیرو سناں، نیزہ وشمشیر سے زخمی اور پارہ پارہ ہو چکے تھے، سر شکافتہ تھا، ایک تیر گلے پر لگاتھا،دوسرے تیر نے ٹھوڑی زخمی کی تھی، ایک تیر پہلو میں پیوست تھا ، زبان خشکی کے سبب تالو سے جا لگی تھی، پیاس سے جگر جل رہا تھا، ہونٹ پیاس سے خشک تھے، دل اصحاب واولاد کی شہادت اور حرم کی بیکسی پر غم سے ملول تھا، آپ ؑ کا ہاتھ زرعہ بن شریک ملعون کے وار سے کٹ چکا تھا، نیزہ پہلو میں درآگیا تھا،سر اور داڑھی خون سے خضاب ہو چکی تھی،عورتوں اور بچوں کے استغاثے ایک طرف، دشمنوں کا سبّ و شتم دوسری جانب ، اصحاب ؓ کی شہادت ساتھ ساتھ (۲) ، اِن تمام مصائب کے باوجود ایک آہ بھی نہ نکالی اور کوئی آنسو گرا ،بس یہی کہتے تھے: ’صبراً علی قضائک ، لا معبود سواک، یا غیاث المستغیثین‘[ترجمہ:تیری قضا پر صبر ہے، تیرے سوا کوئی معبودنہیں،اے پناہ مانگنے والوں کی پناہ!(۳)،اسی لئے آپ ؑکی زیارت میں آیا ہے کہ:’ ولقد عجبت من صبرک ملائکۃ السماوات‘[ ترجمہ: بیشک تیرے صبر پر آسمانوں کے فرشتے تعجب
--حاشیہ--
(۱) منتخب طریحی ۲؍۱۳۳ ۔ مناقب ۳؍۲۵۷۔ (۲) امام حسین ؑ کی شہادت کا بیان مقاتل کی کتابوں میں ملاحظہ ہو۔ (۳) کتاب ذریعۃالنجاۃ ص ۱۴۵ میں ابی مخنف سے نقل ہے مگر مقتل ابی مخنف میں نہیں ملا۔ کرتے ہیں](۱)۔ امام سجاّد ؑ سے مروی ہے کہ جوں جوں امام حسین ؑ پر مصائب بڑھتے جاتے تھے آپ ؑ کے چہرے کی چمک اور اطمینان میں اضافہ ہوتا جاتا تھا، یہاں تک کہ بعض دشمنوں نے کہا: کہ حسین ؑ کو دیکھو کہ موت سے ذرا بھی نہیں ڈرتا (۲)، البتہ کربلا میں چھ (۶)مقامات پر حسین ؑ روئے، شاید اُس میں بھی کوئی راز ہو: اہلبیت ؑ کے مصائب پر گریہ عظیم عبادت ہے اولاًخود مصائبِ اہلبیت ؑ پر رونا بہت عظیم عبادت ہے، اور ثانیاًیہ (مصائب) دین کی انتہائی ضعف کا سبب تھے ،اور ثالثاً آپ ؑ انسانی جذبات سے عاری نہیں تھے، جیسا کہ امام ؑ بھوک،پیاس اور خستگی کا احساس امام ؑ کو ہوتا تھا، ان مصائب سے لازمی طور پر دل جلتا تھا، چنانچہ حضرت محمد ؐ اپنے بیٹے ابراہیم کے انتقال پر روئے اور فرمایا:’ دل جل رہا ہے اور اشک گر رہے ہیں مگر ایسی کوئی بات نہ کہوں گا جس سے اللہ ناراض ہو ‘ (۳)۔ امام ؑنے اس میں اپنے جد ؐ بزرگوار کی تأسی فرمائی۔یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان اصحاب و اولاد اور بھائیوں کے بعد خود کو بیکس و تنہا دیکھے ، جبکہ ظلم کا نشانہ بھی بنے اور زمین کو اُس پر تنگ کر دیا جائے، دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہو، اور دوسری جانب اطراف میںایسی عورتیں
--حاشیہ--
(۱) بحار ۹۸؍۲۴۰ ۔ مصباح الزائر ص۱۲۱؍ ۱۲۴۔ (۲) بحار ۴۴؍۲۹۷ ۔ معانی الاخبار ص۲۸۸۔ (۳) بحار ۲۲؍۱۵۷ ۔ فروع کافی ۳؍۷۲۔ اور بچے ہوں جو بھوکے پیاسے بھی ہوں، کوئی مغموم، کوئی بیہوش، تو کوئی عالمِ احتضار میں ،کوئی ساتھ چھوڑ کر موت کی آغوش میںجانے پر آمادہ، اور وہ اِنہیں کہے کہ: قید کے لئے تیّار ہو جائو، صبر کرو، چیخ وپکار نہ کرنا، پھر جانے پر آمادہ ہو گئے ، تو امام ؑ کی چھوٹی بچی آئے اورباپ کے کپڑوں سے لپٹ جائے اور کہے کہ: ذراسی دیر رک جائیںتاکہ میں اچھی طرح سے خداحافظی کرلوں، پس وہ اُس کے ہاتھ پائوں چومنے لگ جائیں اور زمین پر بیٹھ کر اُسے اپنی آغوش میں لیں، اس حالت میں آپ ؑ آنسو نہ روک سکے اور گریہ فرمایااور اپنے اشک آستین سے پونچھتے جاتے اور فرماتے: سیطول بعدی یا سکینۃ فاعلمی منکِ البکاء اذ الحمام دھانی یعنی: اے سکینہ! جان لو کہ جب مجھے موت آئے گی تو تیرا گریہ بہت طولانی ہوگا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ جب آپ ؑنے گریہ فرمایا(۱)۔ دوسرا موقعہ: اُس وقت تھا کہ جب اپنے بھائی کی لاش پر پہنچے اور دیکھا کہ وہ خاک پر اس طرح پڑے ہیں کہ مشک میں سوراخ ہو چکا ہے ، دوسری جانب دونوں ہاتھ قطع ہو چکے ہیں ، پس شدید گریہ فرمایا (۲)۔ تیسرا موقعہ:جب قاسم ؑ نے جنگ کی اجازت چاہی تو اتنا روئے کہ غش آگیا(۳)۔
--حاشیہ--
(۱) مناقب ابن شہر آشوب ۳؍ ۲۵۷۔ (۲) بحار ۴۵؍۴۲ ۔ مثیر الاحزان ص۷۱ ۔ لہوف ص ۵۱۔ (۳) بحار ۴۵؍۳۵۔ چوتھا موقعہ: جب قاسم ؑ کی لاش پر آئے تو دیکھا کہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہو چکی ہے (۱)۔ پانچواں موقعہ: جب جناب علی اکبر ؑ میدان کی جانب جانے لگے تو بے اختیار اشک جاری ہوئے، اپنی داڑھی ہاتھ سے پکڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور مناجات فرمائی (۲)۔ چھٹا موقعہ : جب بی بی زینب ؑ کو تسلی دے رہے تھے کہ گریہ وزاری نہ کرو، اچانک اپنے گریہ پر قابو نہ پاسکے اور چشمِ مبارک سے چند قطرے آنسو گرے مگر فوراً ہی سنبھل گئے(۳)۔ جب بھی ان حالات کو سوچوگے ، تو جان لوگے کہ ایسے حالات میں عام طور پر محال ہے کہ کوئی صاحبِ دل ، رئووف و مہربان انسان نہ روئے۔ خاتمہ: سابقہ موضوع امام ؑ کی تمام زندگی کی خصوصیات کے بارے میں تھے، اور یہ موضوع آپ ؑ کی اُن خصوصیات کے سلسلے میں ہے کہ جو فقط روزِ عاشورا کو امام ؑ سے ظاہر ہوئے، اور اب جو دو خصائص بیان کر رہے ہیں وہ بھی روزِ عاشورا کی خاص الخاص خصوصیات ہیںاور یہ دو صفات عجیب ہیں: امام حسین ؑ متضاد صفات کے مجموعہ تھے اول:آپ ؑ متضاد صفات کے مجموعہ تھے، تفصیل یہ ہے کہ امام ؑ کبھی صدموںکی
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۳۵۔۳۶ (۲) بحار ۴۵؍۴۲ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۳۰۔ (۳) بحار ۴۵؍۲ ۔ ا رشاد مفید ؒ ص ۲؍۹۶۔ نسبت سے پریشان نظر آتے اور جوں جوں اضطراب بڑھتا آپ ؑ کے وقار اور اطمینان میں بھی اضافہ محسوس ہوتاتھا، پس ایک ہی وقت میںاضطراب بھی آپ ؑ میںتھا اوراطمینان بھی ، نیز کسی جگہ پر روتے ہوئے نظر آتے جیسا کہ ابھی گزرا اور ساتھ ہی صابر بھی لگتے، کہ جس صبر پر ملائکہ متعجب تھے، پس گریہ اور صبر دونوں آپ ؑ نے جمع کر دیئے تھے۔ اسی طرح ایک جانب تو اکیلے تھے چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیرا ہوا تھا ، اس کے باوجود دل نہیں ہارا تھا، اصحاب و انصار شہید ہو چکے تھے اور کوئی یاور و مددگار نہ تھا ، خود دشمنوں سے اپنے خون کا حساب طلب کر تے تھے اور بڑھ بڑھ کر حملے کرتے جاتے تھے، اور لعینوں کو واصلِ جہنم کرتے تھے، پس تنہائی کے ہوتے ہوئے رعب وجلال کے سبب ایک مکمل لشکرتھے، کہ جب حملہ کرتے تو وہ ایسے فرار کرتے تھے کہ جیسے بھیڑیئے کے سامنے سے بکریوں کا ریوڑ بھاگتا ہے ۔ اہل و عیال کے درمیان غریب و بیکس تھے اور خود تنہائی کے سبب استغاثہ بلند کرتے تھے ،’ہل من ناصر ینصرنی‘ [ترجمہ: کیا کوئی مددگار ہے کہ جو میری مدد کرے؟](۱)، اس کے باوجود مدد مانگنے والوں کی مدد کو پہنچتے تھے، اصحاب میں سے جب بھی کوئی زمین پر گرا اور اس نے مدد کے لئے پکارا کہ: ’یا ابا عبد اللّٰہ أدرکنی‘ تو آپ ؑ اس کے سرہانے پہنچ جاتے تھے(۲)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۴۶ ۔ مثیر الاحزان ص۵۲۔ لہوف ص۵۰۔ (۲) بحار میں شہداء کے حالات میں ہے۔ شہداء اپنی جان آپ ؑ پرفدا کرتے تھے اور امام ؑ اپنی جان راہِ خدا میں قربان کررہے تھے تاکہ گمراہوںکو ہدایت اور گناہگاروں کو نجات مل جائے۔ خاک پر بے حال گرنے کے باوجود اہل و عیال کو بچانے کی فکر میں تھے ، اور شدتِ تشنگی ہوتے ہوئے عورتوں اور بچوں کو سیراب کرنے کی فکر تھی، یہاں تک کہ ذوالجناح کو۔ بے لباس ہوتے ہوئے آپ ؑ کے جمال کے نور کی شعاع ایسی چکاچوند کرنے والی تھی کہ جسم نظر نہیں آتا تھا (۱)، پس ایک ہی وقت میںجسمِ مبارک عیاں بھی تھا نہاں بھی۔ نیز خدّ مبارک خاک و خون سے آلودہ ہوتے ہوئے بھی اتنا چمک رہا تھا کہ نور صاف پھوٹتا محسوس ہورہاتھا (۲)۔ امام ؑ خود ملجا وماویٰ نہ رکھتے ہوئے بھی بے نوائوں کی پناہ تھے، روتے ہوئے لوگوں کو چپ کراتے تھے ،جبکہ خود گریہ کا سبب تھے، جیسا کہ عبد اللہ اور عبد الرحمان آپ ؑ کی خدمت میں آئے اور اذنِ جہاد مانگتے تھے اور روتے جاتے تھے، امام ؑ نے کہا روتے کیوں ہومجھے امید ہے کہ ابھی چند لمحوں میں تمہاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی ، عرض کی: ہم اپنے آپ پر نہیں بلکہ آپ ؑ پر گریہ کرتے ہیں(۳)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۵۷ ۔ لہوف ص۵۵۔ (۲) بحار ۴۵؍۵۷ ۔ لہوف ص۵۵۔ (۳) بحار ۴۵؍۲۹ ۔معلوم رہے کہ تاریخ طبری ۵؍۵۵ میںاور مقتل ابی مخنف ص ۱۵۱ میں یہ واقعہ کسی اور دو افراد سے منسوب کیا گیا ہے۔ دوسروں کو گریہ سے منع فرماتے مگر خود روتے تھے، چنانچہ شبِ عاشورا میں جب آپ ؑ نے کچھ ایسے اشعار پڑھے جن میں دنیا سے جدائی کا ذکر تھاتو بی بی زینب ؑ نے بھانپ لیا اور روتے ہوئے نزدیک آئیں اور کہا: بھیا! یہ کلام اُس کا ہے کہ جسے مرنے کا یقین ہو، امام ؑ نے فرمایا: ہاںاے بہن!ایسا ہی ہے، صبر کرو، شیطان تمہارے حلم و بردباری کو ختم نہ کردے، پس یہ کہتے ہوئے آپ ؑ پر گریہ کا غلبہ ہوا، اور آپ ؑ نے شدید گریہ کیا(۱)۔ دو متضاد تکالیف کا ملاپ دوسری عجیب چیز:دو متضاد تکالیف کابظاہر جمع ہونا، وہ اِس طرح کہ جیسے حکمِ وضعیہ میں رسولِ گرامی ؐ کے لئے خاص حکم ہوتا ہے ، اسی طرح ہرامام ؑ کے لئے اُس کے مقامِ امامت کے لحاظ سے حکم ہوتا ہے ، لوگوں کے ساتھ سلوک مہرشدہ صحیفہ میں لکھا تھا، ہر ایک امام ؑنے اپنی ڈیوٹی کے مطابق عمل کیا اوراس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوا، اسی کے مانند آپ ؑ نے بھی اُسی دستورالعمل پر عمل کیا کہ جو آپ ؑ کے ذمہ تھا،پس یہ اعتراض بے جا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ضرر اور جانوں کا ضیاع ہے اِس کام میں پھر آپ ؑ نے ایسا کام کیوں کیا؟اس لئے کہ امام ؑ کے اوامرِ الٰہی پر سرِ تسلیم خم کردینے سے آپ ؑ کو مقامِ کمال حاصل ہوا، پس امام حسین ؑ تکلیف کے سلسلے میں تکلیفِ ظاہری کہ جو عام لوگوں کی طرح تھی، اور تکلیفِ واقعی کہ جو آپ ؑ سے مخصوص تھی ، دونوں کو جمع کردیا جو فقط آپ ؑ ہی کا کارنامہ ہے۔ البتہ تکلیفِ واقعی کے مطابق امام ؑ نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کی شہادت نیزاہل
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۵؍۲ ۔ ارشادمفید ؒ ۲؍۹۶۔ وعیال کی اسیری اورذلت کو جانتے بوجھتے ہوئے قبول فرمایا، پس اس کی علت یہ تھی کہ بنی امیہ عام طورپر اور اس کے سربرآوردہ لوگ عوام کے ساتھ ایسا برتائو کرتے تھے کہ اکثر افراد ان کے دلدادہ تھے اور انہیں حق پر سمجھتے تھے، اور علی ؑ اور ان کی اولاد اور شیعہ کوباطل پر خیال کرتے تھے، اور آپ ؑ پر سبّ کرنا اپنا طریقہ بنا رکھا تھا، بلکہ نمازِ جمعہ کا حصہ قرار دے دیا تھا اور اس قدر ضروری تھا کہ ان کے بعض چیلیاس قدر پابند تھے کہ اگر کبھی بھول جائیں اور سفر میں یاد آئے تو وہیں پر اس کی قضا بجا لائی جاتی تھی، یوں ایک مسجد اسی نام کی مناسبت بنائی اور اس کا نام ’ مسجد ذکر ‘ رکھا گیا(۱)۔ اگر امام ؑ ان لوگوں سے صلح کرلیتے یا بیعت کرلیتے تو دینِ حق بالکل ہی پامال ہو جاتا ، اور بہت سے لوگ تو یہی سمجھتے کہ بنی امیہ کا کوئی مخالف نہیں ہے اور یہ لوگ ہی پیغمبر ِ اسلام ؐ کے حقیقی خلفاء ہیں، چنانچہ جب امام ؑ نے اُن سے جنگ کی اور انہوں نے آپ ؑ کے ساتھ یہ سلوک کیا، پیغمبر ؐ کے اہل وعیال کا یہ حال بنایا تو لوگ جان گئے کہ وہ ظالم حکمران ہیں نہ کہ رسول ؐ کے جانشین، آہستہ آہستہ شیعوں کے دین کی حقیقت لوگوں پر واضح ہو گئی۔ لیکن تکلیفِ ظاہری کے مطابق امام ؑ نے اپنی اہل و عیال کی حفاظت اور حمایت کے لئے حتّٰی المقدور کوشش کی، مگر اُن کے لئے ممکن نہیں تھا، ساری دنیا نے امام ؑ کو گھیرا ہوا تھا، یزید ملعون نے مدینہ کے گورنر کو لکھا کہ امام حسین ؑ کو قتل کر دے، حضرت ؑ نے مکہ کا سفر اختیار کیا (۲)، جبکہ وہ اس آیت کی تلاوت کررہے تھے: ’ فخرج منہا خائفاً یترقب‘ [ پس
--حاشیہ--
(۱) فرحۃ الغری ابن طائوس ؒ ص۲۵۔ منتخب طریحی ۱؍۵۔ (۲) بحار ۴۵؍۲۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۳۳ خوف کے عالم میں وہ وہاں سے چوکس ہو کر نکلے] (۱)۔ وہاں سے حرمِ خدا میں پناہ لی کہ جسے اللہ نے امن کا گہوارہ قرار دیا،یہاں تک کہ کفار، نفسِ محترمہ کا قاتل، وحوش و طیور، اشجار و نباتات سب کے لئے امان ہے مگر آپ ؑ کو وہاں قتل کرنا چاہتے تھے، پس آپ ؑ نے حج کے احرام کو عمرہ سے بدل کر محل ہوگئے ۔ آپ ؑ کی ظاہری تکلیف کوفہ کا سفر تھا ، کیونکہ وہاں کے بہت سے لوگوں نے خطوط بھیجے کہ: ہم آپ ؑ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں(۲)۔ پھر حضرت مسلم بن عقیل ؑ نے بھی لکھا تھا کہ لوگوں نے بیعت کر لی ہے(۳)، پس اب آپ ؑ کے لئے کوئی حجت نہیں رہ گئی تھی، جب امام ؑ اِن لوگوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے بیعت توڑ دی،پھر آپ ؑ کے لئے واپسی کا راستہ بھی بند ہو گیا، اگر واپس جاتے بھی تو کہاں جاتے؟امام ؑ کے لئے کوئی جائے امان نہ تھی، اور اگر آپ ؑ بیعت کرتے تو اُن کو ذلت کے ساتھ قتل کردیتے۔ ان تمام چیزوںپر گواہ یہ ہے کہ جب اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے ملاقات ہوئی تو عرض کی کہ یمن کی طرف چلے جائیں، یا صحرائوں یا پہاڑوں کی طرف چلے جائیں، امام ؑ نے فرمایا: اگر کسی جانور کے بل میں بھی چُھپ جائوں تو یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر قتل کردیں گے(۴)۔ جب فرزدقـؔنے عرض کی : اے رسول اللہ ؐ کے بیٹے!
--حاشیہ--
(۱) سورۃ قصص آیت ۲۱۔ (۲) بحار ۴۴؍۳۳۳ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۳۵ ۔ (۳) بحار ۴۴؍۳۳۶ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۳۸۔ (۴) بحار ۴۵؍۹۹ ۔ حج کو کیوں مکمل نہ فرمایا؟امام ؑ نے فرمایا: اگر رُکتا تو مجھے گرفتار کر لیتے (۱)۔ ابو ھرہ ازدی منزلِ ثعلبیہ پر ملا تو پوچھا: اللہ کے حرم اور رسولؐ کے حرم سے جدائی کیوں اختیار فرمائی؟فرمایا: اے ابو ھرہ! بنی امیہ نے میرا مال لوٹا میں نے صبر کیا، مجھ پر سبّ وشتم کیا میں نے برداشت کیا، اب وہ میرا خون بہانا چاہتے تھے تو میں نکل آیا(۲)،اور عمرو بن لوذان کہ جو قبیلہ بنی عکرمہ کا ایک فرد تھا، اُس نے وادیٔ بطن عقبہ میں پوچھا:آپ ؑ کہاں جارہے ہیں؟ فرمایا : کوفہ کی طرف جارہا ہوں، عرض کی: آپ ؑ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ واپس چلے جائیںکہ اس صورت میں آپ ؑ تلواروں اور نیزوں کی جانب جارہے ہیں، اگر اہلِ کوفہ اس امر کو صاف کرچکے ہوتے تو کوئی بات نہ تھی، امام ؑ نے فرمایا: صحیح رائے ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن اللہ کے حکم کو پورا ہونا ہی ہے اور یہ لوگ بھی مجھے چھوڑنے والے نہیں ہیںجب تک کہ میرے دل کا خون میرے سینہ سے باہر نہ نکال لیں(۳)۔ یہ جو آپ ؑ نے فرمایا کہ : حکمِ خدا کو پورا ہونا ہے ،یہ تکلیفِ واقعی کی طرف اشارہ ہے اور جو فرمایا کہ: مجھے یہ لوگ نہیں چھوڑیں گے، یہ تکلیفِ ظاہری کی جانب اشارہ ہے اور آپ ؑ کی مجبوری ہے، نیز جو دل خون ہونے کی بات فرمائی یہ اُ س سرزمین پر نازل ہونے والی شدید مصائب کی جانب اشارہ ہے۔ ابھی ابتداء تھی مگر ہماری بات کو یہ چیز تقویت دیتی ہے
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۳۶۵ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۶۸۔ (۲) بحار ۴۴؍۳۶۷ ۔ لہوف ص۳۰۔ (۳) بحار ۴۴؍۳۷۵ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۷۷۔ کہ اگر آپ ؑ بیعت فرماتے تو امام ؑ کو پھر بھی قتل کردیا جاتا کیونکہ جب ابن زیاد ملعون نے خط لکھا تو یہ تحریر کیاکہ میرے اور یزید ملعون کے حکم پر تسلیم ہو اور بیعت کرے (۱)، شمر ملعون کہتا تھا کہ پہلے حسین ؑ بیعت کرے پھر اُس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے(۲)۔اگر امام ؑ کے قتل کا منصوبہ نہ ہوتا تو یوں نہ کہتے اور امام ؑ کو اُ ن کی نیت کا علم تھا اسی لئے فرمایا: میں تمہارے ہاتھ میں غلاموں کی طرح بیعت نہیں کروں گا اور نہ ہی ذلت کے ساتھ تمہارے ہاتھ میں ہاتھ دوں گا(۳)۔بالکل واللہ میں آپ ؑ کے قربان ہو جائوں آپ ؑ نے راہِ حق میں عزت کے ساتھ جان دینے کو اُن ذلیل اور پست لوگوں کی بیعت پر ترجیح دی، اگر تقیہ کے طور پر بھی آپ ؑ بیعت پر راضی ہو جاتے تویہ لوگ آپ ؑ کو چھوڑنے والے نہیں تھے اور وہ آپ ؑ کو ذلت و خواری کے ساتھ شہید کر دیتے، پس امام ؑ نے اپنی عزت و شرف کو قائم رکھا اور اللہ کے دین اور حکم کو زندہ رکھ کر خدا کے بندوں کو نجات دلائی۔(صلّی اللّٰہ علیک و علی الاروح التی حلت بفنائک و اناخت برحلک)۔ ْ
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۳۸۳ ۔ ارشادمقتل خوارزمی ۱؍۲۳۹۔ (۲) بحار ۴۴؍۳۹۰ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۹۰۔ (۳) بحار ۴۵؍۷ ۔ ارشادمفید ؒ ۲؍۱۰۲ ۔ مقتل ابی مخنف ص۱۱۸ ۔ مثیر الاحزان ص ۳۷۔