دوسرا عنوان:
امام حسین ؑ کے اوصافِ حمیدہ
اور اخلاقِ پسندیدہ کی خصوصیات
دوسراعنوان:امام حسین ؑ کے صفات، اخلاق اور عبادات کا بیان، قطع نظراُن کے امام ہونے کے ورنہ کسی میں کیا صلاحیت ہے کہ وہ اُسے پا سکے۔پس ہم کہتے ہیں کہ : اُن صفاتِ حمیدہ میں سے ایک ’غیرتِ دین‘ ہے یعنی ذلیل اورنیچ لوگوں سے ذلّت برداشت نہ کرنا۔ منقول ہے کہ ابن زیاد ملعون نے امام ؑ کو مشورہ دیا کہ ابن زیاد (لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَیہِ) اور یزیدفاسق کا حکم مان لو تاکہ قتل سے تم بچ جائو، امام ؑ نے فرمایا: ہرگز میں تمہیں دستِ ذلّت نہ دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح گناہ کا اقرار کروں گا، کیونکہ خدا و رسول ؐ اور اہلِ ایمان اِس پر تیّار نہیں ہیں (۱)۔
جوبھی دنیا میں اِس روشِ عزّت پر چلتا ہے وہ امام حسین ؑ ہی کی اقتداء کرتا ہے۔
شجاعت، عبادت اور رعایتِ حقوق جیسی صفات
ایک اور صفت شجاعت ہے اور یہ حضرت ؑ کی وہ صفت ہے کہ جس کا کوئی حامل ہے، یہاں تک کہ شجاعتِ حسینیہ ؑزباں زدِ عام ہوگئی بلکہ امام علی ؑ کی شجاعت بھی(کیفیات کے فرق کے ساتھ)اِس قدرظہور نہ ہو سکی۔
ایک اور صفت عبادت ہے کہ جب آپ ؑ شکمِ مادر میںتھے ،بقول اُن کی والدہ ؑ
کے کہ وہ اُن کی تسبیح کی آوازیں سنتی تھیں (۲)، یہاں تک کہ آپ ؑ کا سرِ مبارک تن سے جدا
--حاشیہ--
(۱) مقتلِ ابی مخنف ص۱۱۸۔ بحار ۴۵؍۷ ۔ ارشادِ مفید ؒ ۲؍۱۰۳۔
(۲) بحار ۳۴؍۲۷۳ ۔ خرائج ۲؍۸۴۴۔
کرکے نیزے پر چڑھادیا گیااور اِسی حال میں وہ قرآن پاک کی تلاوت فرمارہے تھے(۱)، جب امام سجاد ؑ سے کسی نے پوچھاکہ آپ ؑ کے والدِ ماجد ؑ کی اولاد کم کیوں تھی ؟ تو آپ ؑ نے فرمایا:تعجب تو یہ ہے کہ ہم کیسے پیدا ہو گئے جبکہ وہ ہر شب ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔
ایک اور صفت، حقوق کی رعایت کرنا ہے، عبدالرحمان سلمی نے امام حسین ؑ کے کسی فرزند کو سورۃالحمد کی تعلیم دی تو آپ ؑ نے اُسے ہزار دینار، ہزار حلّے عطاء کئے اور اُس کا منہ موتیوں سے بھر دیا، اور فرمایا: اُس کا حق اِس سے زیادہ ہے(۲)۔
امام حسین ؑ کی اہم صفت: حیاء
آپ ؑ عطاء کرتے ہوئے ’حیاء‘ کرتے تھے، اور سوال کرنے کی ذلّت چہرے پردیکھ کر غمگین ہوجاتے تھے۔ جیسا کہ مشہور واقعہ ہے کہ کسی اعرابی نے اشعار کے ذریعہ آپ ؑ سے سوال کیا:
لم یخب الآن من رجاک و من حرّک من دون بابک الحلقۃ
(ترجمہ: اب وہ مایوس نہ ہوگا جس نے آپ سے امید باندھی اور آپ کے گھرکے حلقہ کو کھٹکھٹایا )۔
پس آپ ؑ گھر میں تشریف لے گئے اورچار ہزار درہم اپنی رداء میں لپیٹ کے
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۱۹۶ ۔ (۲) بحار ۴۴؍۱۹۱ ۔ مناقب ابن شہر آشوب ۳؍۲۲۲۔
لائے ، ذرا سا دروازہ کھولا اورہاتھ بڑھا کر وہ اعرابی کو دیئے اور شعر ہی میں یوںفرمایا:
خذہا فانّی الیک معتذر واعلم بانّی علیک ذوشفقۃ
لو کان فی سیرنا الغداۃ عصاً امست سمانا علیک مندفقۃ
لکنّ رَیب الزمان ذوغِیَر و الکف منّی قلیلۃ النفقۃ
ترجمہ:یہ درہم لے لو، میں معذرت خواہ ہوں مگر جان لو کہ میں تم پر مہربان ہوں ،
اگر اِ س سے زیادہ ہمارے پاس گنجائش ہوتی تویہ ابرِ کرم تم پر زیادہ برستا، لیکن اِ س زمانے کے
لوگوںنے ہمارے حق کی رعایت نہیں کی اور میرے ہاتھ مالِ دنیا سے خالی ہیں(۱)۔
نیز کسی سائل کو ہزار دینار یا درہم دیئے، اُس نے وہ بیچنے شروع کر دیئے ، توخزانہ دار نے کہا کہ کیا تم نے ہمیں کوئی چیز بیچی تھی ؟ اُس نے کہا : ہاں ، اپنی آبرو بیچی تھی، امام ؑ نے فرمایا: تم نے صحیح کہا، پھر کہا کہ اِس کوہزارو ہزار و ہزار دو، ایک سوال کے عوض، ایک تیری آبروکے بدلے میں اور ایک اِس لئے کہ تم ہمارے پاس اپنے مشکل کے لئے آئے کسی دوسرے کے پاس نہیں گئے۔
اسی طرح ،ایک دفعہ کسی نے کوئی چٹھی امام ؑکو دی، تو حضرت ؑ نے فوراً فرمایا: تیری حاجت روا ہے اور وہ رقعہ پڑھا بھی نہیں، اُس نے پوچھا کہ پڑھنے سے پہلے ہی یہ فرمادیا؟ فرمایا: اللہ مجھ سے سوال کرے گا کہ تم نے اُس کورقعہ پڑھنے تک کیوں معطّل رکھا؟
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۱۹۰۔ مناقب ۳؍۲۲۲۔ (۱) بحار ۴۳؍۳۱۹ ۔ مناقب ۳؍۱۶۸۔
کبھی اِس قدر حیاء کرتے اور جاہل کو سوال کی ذلّت سے بچاتے تاکہ وہ سوال بھی نہ کرے اور اُسے دینی مسئلہ بھی معلوم ہو جائے۔چنانچہ روایت میں ہے کہ ا مام ؑ نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ وضو غلط کررہا ہے، امام ؑ نے چاہا کہ اُس کی اصلاح کریں مگر حیاء مانع تھی، تو آپ ؑ نے بھائی حسن ؑ سے کہا کہ آیئے ہم اِس کے سامنے وضو کرتے ہیں اور پھر اِس سے پوچھیں گے کہ کس کا وضو صحیح ہے؟ یہی اِن دونوں شہزادو ؑںنے کیا تو وہ اعرابی متوجّہ ہو گیا، اور عرض کی کہ آپ دونوں کا وضو بہتر ہے اور میں ہی اِس کے صحیح طریقے سے نا واقف تھا (۱)۔
محزون و مغموم کے لئے امام حسین ؑ کی دل سوزی
کسی پریشان حال کو دیکھتے توفوراً اُس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتے، چنانچہ جب اُسامہ بن زید کی عیادت کو تشریف لے گئے تو وہ احتضار کے عالم میں تھے ، ایک آہ کھینچی اور کہا: ہائے افسوس!، امام ؑ نے پوچھا: تمہیں کیا غم ہے ؟کہا :ساٹھ ہزار کا قرضہ واجب الاداء ہے، فرمایا: میں تمہارے قرض کا ذمہ دار ہوں، کہا: میں نہیں چاہتا کہ مقروض مروں، امام ؑ نے حکم دیا کہ مال لایا جائے اور آپ ؑ نے اُس کے مرنے سے پہلے تمام قرض خواہوں کو بلا کر ادائیگی کردی(۲)۔
آپ ؑکی ایک صفت خفیہ طور پر صدقہ دینا ہے جیسا کہ منقول ہے کہ امام ؑکی شہادت کے بعدجب آپ ؑ کی پشت پر گٹھے دیکھے، تواِس کے بارے میں امام سجاد ؑ سے پوچھا گیا ، تو
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۳؍۳۱۹ ۔ مناقب ۳؍۱۶۸ ۔ (۲) بحار ۴۴؍۱۸۹ ۔ مناقب ۳؍۱۶۸ ۔
آپ ؑ نے جواب دیا کہ: یہ اُن بوریوں کی وجہ سے ہیں جو آپ ؑ راتوں کو اُٹھاکر اناج بیوائوں اور یتیموں تک پہنچایاکرتے تھے(۱)، شاعر کہتا ہے:
و انّ ظہراً غدا للبرّ ینقلہ سرّاً الی اہلہ لیلا لمکسور
ترجمہ: اے وائے کہ وہ پشت جو راتوں کو فقراء کے لئے صدقات اٹھایا کرتی تھی وہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے کیونکر پاما ل ہوگئی؟!
ایک اور صفت:مخلوقِ الہٰی کو اُس کے عذاب سے بچانے کا عزمِ جزم ، اور اِ سی سبب شہادت کا بارِ گراں اُٹھایاتا کہ گناہگاروں کی شفاعت کے عظیم مرتبہ کو پالیں، اور اِس سلسلے میں ایسا اہتمام کیا کہ اپنے دشمن تک کی نجات چاہی، جب ایک شخص آپ ؑ کے قتل کے ارادے سے آیا تو حضرت ؑ نے مسکرا کے اُسے دیکھا اور نصیحت فرمائی (۲)، اور جب محسوس کرتے کہ مکمّل طور پر نجات ممکن نہیں ہے تواُس کے عذاب میں کمی کی کوشش فرماتے، جیسا کہ ہرثمہ بن ا بی مسلم سے ملے اور سمجھایا مگر اُس پر اثر نہ ہوا تو فرمایا : پس اِس زمین(کربلا) سے دور ہو جائوتاکہ میرا مارا جانا نہ دیکھ سکو او رنہ ہی میری صداء (استغاثہ) سُن سکو(۳)،اِسی طرح جعفی (عبید اللہ بن حر)سے ایسی ہی نصیحت فرمائی(۴)، چنانچہ یہ اپنی جگہ آئے گا (انشاء اللّٰہ )۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۱۹۰ ۔ مناقب ۳؍۲۲۲ ۔ (۲) بحار ۴۵؍۵۶ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۳۶۔
(۳) بحار ۴۴؍۲۵۶ ۔ امالی صدوق ؒمجلس ۲۸ص۱۱۷۔
(۴) بحار ۴۴؍۳۱۵ ۔ امالی صدوق ؒ مجلس ۳۰ص۱۳۲۔
ایک اور صفت اللہ سے شدید خوف ہے، کہ جب بھی وضو فرماتے آپ ؑ کا رنگ متغیر ہو جاتا، اور جسمِ مبارک لرزنے لگتا۔جب آپ ؑ سے اِس کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ ؑ جواب دیتے: قھار بادشاہ کے حضور میں جانے والے کے لئے شائستہ ہے کہ اُس کا رنگ بدل جائے اور بدن لرزنے لگے(۱)۔ لوگ آپ ؑ کے شدید خوفِ الہٰی سے تعجب کرتے اورپوچھتے کہ آخر آپ ؑ کے اِس عظیم خوف کا کیا سبب ہے؟ امام ؑ جواب دیتے: قیامت میں وہی محفوظ ہوگا کہ جو دنیا میں خدا سے ڈرتا ہوگا(۲)۔
فاضل مؤلّفؒ کہتا ہے کہ:غور کرنا چاہیئے کہ عبادت کے لئے وضو کا ارادہ کرتے وقت امام سید الشہداء ؑ کے جسم پر لرزہ طاری ہوتااور رنگ متغیر ہوجاتا۔۔۔اور ہم گناہانِ کبیرہ میں غرق رہ کر کسی بھی پریشانی و اضطراب کا شکار نہیں ہوتے، کیسے امام ؑ کی پیروی کا ادعاء کرتے ہیں۔ وہ بہترین طاعات میں لرزاں اور ہم بدترین معاصی میں خنداں! ببین تفاوت ِ رہ از کجا ست تا بہ کجا!
قرآن و حدیث میں امام حسین ؑ کی مدح
ایک اورصفت یہ ہے کہ آپ ؑ کے قصیدے دوست و دشمن سب نے پڑھے، جیسا کہ قرآن کریم نے مختلف طرح سے تعریف فرمائی ہے، کبھی اُنہیں ’نفس مطمئنہ‘ کا لقب دیا، کبھی ’کفل رحمۃ ‘کہا۔نیز آپ ؑ ’والد‘ کے مصادیق میں شامل ہیں جن پر احسان کرنا اللہ نے واجب قرار دیا ہے، جیسا کہ دونوں آیات میں آیا ہے(۳)۔
--حاشیہ--
(۱)عوالم ۱۷؍۶۱ (۲)بحار ۴۴؍ ۱۹۲۔ مناقب ۳؍۲۲۴۔ (۳)بحار ۴۳؍۲۲۶۔ تفسیر قمی ؒ ۲؍۲۹۷۔
اِ س کے علاوہ : مَنْ قُتِلَ مَظْلُوماًکی تاویل میں آپ ؑ مراد ہیں ،اِسی طرح ایک جگہ ذبح عظیم اورکھیعصکربلا کے حادثہ کے بارے میںنیز آپ ؑ کے لئے فجر، والزیتون، و مرجان یہ تمام ماثورہ احادیث میں منقول ہیں ، اور عرش کی سیدھی طرف لکھا ہے کہ :’اِنَّ الْحُسَیْنَ مِصْبَاحُ الْھُدٰی وَ سَفِیْنَۃُالنّجَاۃ‘ (۱)۔
اِ سی طرح احادیثِ قدسیّہ میں آپ ؑ کا ذکر آیا ہے کہ:ـ’ مبارک ہو وہ مولودکہ جس پر میری صلوات ورحمت ہے ‘ (۲) نیز آیا ہے آپ ؑ میرے اولیاء کا نور اور خلق پرمیری حجت ہیں اور گناہگاروں کے لئے ذخیرہ ہیں (۳)، چنانچہ تمام تفصیلیں آئیں گی،(انشاء اللّٰہ )۔
نیز حضرت نبی ؐ نے امام ؑ کی مدح فرمائی اور عجیب صفات بیان فرمائیں، جیسا کہ فرمایا: ’تم پر مرحبا ہو اے زمین و آسمان کی زینت‘ ، ابی ّ بن کعب ؓ نے عرض کی: کیا آپ ؐ کے علاوہ بھی کوئی زمین و آسمان کی زینت ہے؟ فرمایا: اُس خدا کی قسم جس نے مجھے مبعوث برسالت کیا ہے کہ حسین بن علی ؑ اہلِ آسمان میں زیادہ محبوب تر ہیں اہلِ زمین سے، اور یقینا خدا نے عرش پر لکھا ہے:’اِنَّ الْحُسَیْنَ مِصْبَاحُ الْھُدٰی وَ سَفِیْنَۃُالنّجَاۃ‘:[بے شک حسین ؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں] (۳)۔ پس رسولِ اسلام ؐ نے اما م ؑ کا دستِ مبارک تھاما اور فرمایا: اے لوگو!یہ حسین بن علی ؑ ہیں ، پس اِنہیں پہچانواور ہمیشہ اِسے دوسروں پر ترجیح دو، جیسا کہ خدا نے اِنہیں فضیلت دی ہے۔ حدیث کے آخر تک (۴)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۳۶؍۲۰۵۔عیون الاخبار ۱؍۵۹۔ (۲)
مترجم (شہرستانی ؒ)کہتا ہے : متعلق محذوف ہو تو یہ عموم کا فائدہ دیتا ہے ، پس اِس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فضیلت سب پر ہے۔ انتہٰی۔
بلکہ ، تمام ملائکہ، انبیاء و صالحین ن ے نیز امام ؑ کی مدح فرمائی،خصوصاً امام ؑ کے
--حاشیہ--
(۱)بحار ۴۴؍۲۳۸۔کامل الزیارات باب ۲۲ص۷۰۔ (۲)بحار ۴۴؍۲۳۸۔ کامل الزیارات باب ۲۲ص۷۰۔
(۳)بحار ۳۶؍۲۰۵۔ عیون الاخبار ۱؍۵۹
(۴)بحار ۴۳؍۲۶۲۔ امالی صدوؒق مجلس ۸۷ص۴۷۸۔ مصنّف ؒ نے دو حدیثوں کو ایک ہی شمار کیاہے۔
دوست و دشمن سب ہی نے مدح سرائی کی ، اُنہیں میں سے معاویہ ہے کہ جس نے یزید ملعون کو وصیّت کرتے ہوئے امام ؑ کی تعریف کی (۱)، اِسی طرح ابن سعد ملعون نے بھی اپنے کچھ اشعار میںآپ ؑ کی مدح کی (۲)، جب اما م ؑ نے اپنے دشمنوں کے سامنے اپنی فضیلتیں گنوائیں اور اُن سے گواہی طلب کی تو سب نے اعتراف کیا(۳)۔شمر ملعون نے چیخ کر کہا کہ : انہ لکفو کریم (ترجمہ :بے شک وہ بہترین ساتھی ہیں)اوراُن کے ہاتھوں سے مرنے میں عار نہیں(۴)،اور جس وقت سنان ملعون آپ ؑ کو قتل کررہا تھااوریہ کہتا جا رہا تھا کہ میں تمہیں قتل کررہا ہوں جبکہ جانتا ہوں کہ تمہارے باپ اولادِ آدم ؑ میں سب سے افضل و اشرف ہیں(۵) ، وہ ملعون کہ جو امام ؑ کا سرِ مبارک ابن زیاد ملعون کے پاس لایا ، یہ اشعار پڑھ رہا تھا:
ترجمہ: میرے اونٹوں کے تھیلے سونے اور چاندی سے بھر دو ، کیونکہ میں نے تمہاری خوشی کی خاطر اُ س عظیم انسان کو قتل کیا ہے کہ جو ماں ، باپ، حسب و نسب میں سب سے بہتر تھا(۶)۔
--حاشیہ--
(۱)بحار ۴۴؍۳۱۱۔ امالی صدوؒق مجلس ۳۰ص۱۲۹۔ (۲)کامل ابن اثیر ۴؍۵۳۔
(۳)بحار ۴۴؍۳۱۸۔ امالی صدوؒق مجلس ۳۰ص۱۳۵۔
(۴)بحار۴۵؍۵۱۔ مقتل خوارزمی ۲؍ ۳۳۔
(۵)بحار ۴۵؍۵۵۔ لہوفِ سید ؒ ص۵۵۔ (۶)کشف الغمّہ۲؍۵۱۔
(۷)بحار ۴۵؍۱۴۳۔ مقتل خوارزمی ۲؍ ۷۴
جب یزید پلید کی زوجہ ہندہ عام مجلس میں بے پردہ آگئی تو یزید ملعون کھڑا ہوگیا اور اُس کے سر پر چادر اُڑھائی اور کہا : جائو حسین ؑ پر گریہ کرو اور نوحہ کرو کہ وہ قریش کے بزرگ تھے(۱)۔
جب یزیدملعون ایسا کہتا ہے تو کیوں آپ کہ جو دوست ہیں گریہ و زاری نہ کریں اور سیدِ جوانان ؑ پر نالہ و بکاء نہ کریں۔
امام حسین ؑ مومنین کے حزن کا سبب ہیں
’خاتمہ‘ یہ جو کچھ بیان ہوا وہ آپ جناب ؑ کے فضائل و اوصاف کا شمّہ برابر حصہ تھا، مجھ میں وہ تاب کہاں کہ میں اُن ؑ کے فضائل کا احصاء کرسکوں کہ جن کے بارے میں خود حضورِ اکرم ؐ بہت سی فضیلتیں بیان کرنے کے بعد فرمائیں :’اُسے برتری دو جیسا کہ خدا نے اُسے برتری دی ہے‘(۲)۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ ؑ کی وہ خاص فضیلت بیان کروں کہ جو تمام اضداد کو گھیر لیتی ہے یعنی حزن وافسوس کاسبب بھی ہے اورسرورو خوشی کا باعث بھی ہے، ہر دو ہیں:
اِس عجیب امر کی توضیح کچھ یوں ہے کہ اوّلِ خلقت سے محشر کی انتہا تک امام حسین ؑ مومنین کے حزن و غم کا سبب ہیں اِس کی کچھ وجوہات تو بیان ہو چکیں اور کچھ بعد میں بیان ہوں گی، بلکہ حزن کا سبب ایسا ہے کہ جس میں خود حزن و اندوہ مقرر نہیںکیا گیا، چنانچہ تمام
ؑ
--حاشیہ--
(۱)بحار۴۵؍۱۴۳ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۷۴۔
(۲) بحار ۴۳؍ ۲۶۲ ۔ امالی صدوؒق مجلس ۸۷ص۴۷۸۔
بہشت اور حور العین دار السرور و الحبور ہیں(۱)، کہ جو امام ؑ کے نورِ پاک سے خلق ہوئے، جیسا کہ انس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا: اللہ نے مجھے ، علی کو،فاطمہ کو، حسن و حسین کوآدم سے پہلے خلق فرمایاکہ جب نہ آسمان تھا، نہ زمین،نہ تاریکی ،نہ ہی نور، نہ شمس و قمر ، نہ بہشت و جہنم، جناب عباس ؓ نے عرض کیا : آپ کی خلقت کس طرح ہوئی؟ آپ ؐ نے فرمایا:اے چچا!جب اللہ نے چاہا کہ ہمیں خلق کرے، ایک کلمہ جاری کیا، پھر ایک نور خلق کیا، اُس کے بعد ایک اور کلمہ جاری فرمایا، پھر ایک روح کو پیدا کیا اور نور کو روح سے مِلا دیا، پھر ہم پانچ افرادکو اُس سے خلق فرمایا۔
پس ہم اُس کی تسبیح و تقدیس کرتے رہے، کہ جب کوئی تسبیح و تقدیس نہ تھی ،پھر جب اللہ نے ارادہ کیا کہ مخلوقات کو پیدا کرے ، تومیرے نور کو شکافتہ کیا، پھر اُس سے عرش کو خلق فرمایا، پس عرش میرے نورسے ہے ،اور میرا نور اللہ کے نور سے ہے، اور میرا نور عرش کے نور سے افضل ہے۔ پس علی کے نور کو شکافتہ کیا، اور اُس سے ملائکہ کو خلق فرمایا، تو علی ملائکہ سے افضل ہیں۔ پھر میری بیٹی فاطمہ کے نور کو شکافتہ کیا، اور اُس سے زمین و آسمان خلق فرمائے ، پس آسمان و زمین سے افضل میری بیٹی فاطمہ کا نور ہے، میری بیٹی کا نوراللہ کے نور سے ہے ، اور میری بیٹی زمین و آسمان سے افضل ہے۔ پھر میرے فرزند حسن کے نور کو شکافتہ کیا، اُس سے شمس و قمر کوخلق فرمایا، پس حسن شمس و قمر سے افضل ہیں، پھرمیرے بیٹے حسین کے نور کو
--حاشیہ--
(۱)الحبور: سرور و زینت کے معنٰی میں آیا ہے۔
شکافتہ کیا،اور اُس سے بہشت وحورالعین خلق فرمائی، پس حسین بہشت و حور العین(۱) سے افضل ہے، حدیث پاک تمام ہوئی۔
پس امام حسین ؑ تمام مومنین کے لئے حزن کا سبب ہوتے ہوئے اُن کے لئے فرح و شادی کا وسیلہ بھی ہیں، کیونکہ حزن خود امام ؑکے سبب سے اور فرح و شادمانی بہشت و حورالعین کے سبب سے ہوگا۔ عجب تو یہ ہے کہ امام ؑ خود بہشت و حورالعین کے لئے حزن کا سبب ہیں، جبکہ وہ خود فرح و شادمانی کے اسباب ہیں ، جیسا کہ روایت میں ہے کہ جس وقت امام ؑ زمینِ کربلا پر گرے تو بہشت نے اُن پر گریہ کیا، اور حورالعین نے چہرے پر طمانچہ مارے اور اعلٰی علیّین میں کہرام مچا تھا(۲)، اِ س سے زیادہ عجیب تر یہ ہے کہ امام ؑ بہشت کے لئے حزن کا سبب ہوتے ہوئے بھی اُس کی شادمانی کا سبب بنے، جیسا کہ نقل ہے : بہشت نے اللہ سے خواہش ظاہرکی کہ اُسے زینت بخشے، پس خدا نے اُس کے ارکان کو امام حسین ؑ سے زینت بخشی، پس وہ اِترانے لگی جیسے دلہنیں خوشی کی شدّت سے اِتراتی ہیں(۳)۔
--حاشیہ--
(۱)بحار ۲۵؍۱۶۔ (۲)بحار ۴۵؍۲۰۶۔کامل الزیارات باب ۲۶ص۸۰۔
(۳)بحار ۴۳؍۳۷۵۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۱۳۱۔