پیش لفظ ازآیۃ اللہ سیّد طیّب موسوی جزائری
خصائصِ حسینیہ ؑ کی خصوصیات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط


اس میں شک ہی نہیں کہ یہ کتاب : ـ’’خصائصِ حسینیہ ؑ ‘‘ (یعنی امام حسین ؑ کی خصوصیات)جسے خود مصنف نے یہ نام دیا، مصائب ِ امام حسین ؑ کے سلسلہ میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے معتبر اور اہم کتاب ہے۔ جس طرح اس کتاب کے مصنف (جناب علامہ شیخ جعفر شوشتری ـؒ) اپنے زمانہ کے گوہرِیگانہ اور عالمِ فرزانہ تھے، ان کی تالیف(خصائصِ حسینیہ ؑ)بھی کتب و اسفار میں وحیدِ روزگار اور تالیفِ یادگارہے۔ اس کا اسلوب عجیب، نکات غریب، مطالب شریف، کنایات لطیف، ظواہر عالی، بواطن غالی،گزارشات دلنواز، نگارشات ممتاز، فکر صائب، ذکر جالب، مبانی مدلل اور معانی مجلل ہیں ۔

:قارئین ِ کرام! اگربغور مطالعہ فرمائیں تو اس کتاب میں آپ کو مندرجہ ذیل خصوصیات ملیں گی

پہلی خصوصیت: اس کا مقدمہ نہایت جالب اور دلچسپ ہے کہ جس میں شیخ ؒ اپنے حساس قاری کو ،ایک مرتبہ عذاب ِ الٰہی سے ڈراتے ہوئے یاس و ناامیدی کے گڑھے میں دھکیل کر اسے تحت الثّریٰ تک پہنچا دیتے ہیں ، پھر ہلاکت سے پہلے ہی اسے وہاں سے امید دلا کر اوج ِ ثریّاپر لے جاتے ہیں، پھر ایک بار اسے یوں جھنجوڑتے ہیں کہ وہ وحشت زدہ ہو کر دنیا و آخرت میں اپنی تباہی پر یقین کرنے لگتا ہے۔۔۔لیکن پھر اسے امام حسین ؑ پر گریہ کے وسیلہ سے ساحل ِ نجات تک پہنچا دیتے ہیں ۔

یہ وہی روش ہے کہ جو قول ِامام علی ؑ کے مطابق ہے:[’’الفقیہ کلّ الفقیہ من لم یقنط الناس من رحمۃ اللّٰہ و لم یویسھم من روح اللّٰہ و لم یومنھم من مکراللّٰہ ‘‘۔ترجمہ: فقیہ (عقلمند)وہ ہے کہ جو لوگوں کو نہ اللہ کی رحمت سے مایوس کرے اور نہ ہی اس کی آسائشوں سے ناامید کرے ،ساتھ ہی اللہ کے مکر و انتقام سے بھی محفوظ و آسودہ خاطر نہ بنا دے]۔(۱)

دوسری خصوصیت:اس کتاب میں ذکر ہونے والے واقعات ، مصائب اور احادیث معتبر، محکم اور مستند ہیں ، جبکہ اس موضوع پر لکھی گئی اکثر کتابیں ایسی نہیں ہیں ۔ موسسہ علوم ِ آل محمد ؑ کی ہیئت محققین نے اپنی کد و کاوش سے ہر واقعہ کے ذیل میں ایک یا اس سے زیادہ مدارک تلاش کرکے وہیں ذکر کئے ہیں۔

تیسری خصوصیت: مصائب کے ایسے گوشے کہ جو حقائق پر بھی مبنی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ گریہ کے لئے بھی بہت مؤثر ہیں، مثلاًعنوان نہم کے ذیل میں امام حسین ؑ کے خصائص کو بیت اللہ سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام حسین ؑ نے کربلا میں مناسکِ حج : احرام ، تلبیہ ، طواف ، سعی ، منیٰ میں بیتوتہ ،حلق اور قربانی، تمام کے تمام ادا کئے۔

آپ ؑکااحرام:وہ پرانا لباس تھا کہ جوآخری وداع کے وقت بہن زینب ؑ سے طلب کیااوراسے اپنے کپڑوں کے نیچے پہن لیا تاکہ اشقیاء آپ ؑ کے بدن مبارک کو شہادت کے بعدبرہنہ نہ کریں۔

آپ ؑ کا تلبیہ : جب روزِعاشورہ امام ؑ نے اپنے بیٹے حضرت علی اکبر ؑکی اذانِ صبح لہجۂ رسولؐ میں سُنی تو ’’لبیک‘‘ کہا، اسی طرح جب جناب علی اکبر ؑ شہید ہوئے اور گھوڑے کی زین سے زمینِ کربلا پر آئے تو بابا کو آواز دی اور کہا:’’یہ میرے جدرسول اللہ ؐ ہیں کہ جو اپنے ہاتھوں سے مجھے سیراب کر چکے اور ایک جامِ کوثرآپ ؑ کے لئے ہے اور فرماتے ہیں : اے فرزند!العجل العجل! جلدی میری طرف آئو‘‘، امام حسین ؑ نے قول و فعل سے’’ لبیک ‘‘کہا۔

آپ ؑ کا طواف:طواف کے لئے ، بیت اللہ کی ضرورت ہے، امام حسین ؑ خود اپنے ساتھ یہ بیت اللہ کربلا لائے تھے، جو ’محبۃ اللّٰہ‘ سے عبارت ہے اور شبِ عاشورہ آپ ؑ نے عبادت، ریاضت اور تلاوت کے ذریعہ اس’ بیت ِ محبت ‘کا طواف فرمایا۔

آپ ؑ کی سعی:امام ؑ ہر شہید کے سرہانے آئے اور اس کا جنازہ خیموں میں لائے، یہ جانا اور آنا ستّر دَور سے زیادہ تھا،یہی ’’سعی‘‘ تھی۔

قربانی:امام حسین ؑ نے روزِ عاشورہ ایسی ایسی قربانیاں دیں کہ جو :اولیاء اللہ کی،اور اصفیاء اللہ کی قربانی تھی، ان میں ایک ایسی قربانی تھی کہ جو ذبیح اللّٰہ حضرت اسماعیل ؑ سے بھی افضل تھی، وہ قربانی آپ ؑ کے فرزند جناب علی اکبر ؑکی تھی۔

حلق: مناسکِ حج میں سے ایک’ حلق‘ (یعنی سر تراشنا) ، امام حسین ؑ نے بجائے بال دینے کے سر ہی راہِ الٰہی میں دے دیا۔

بیتوتہ: اعمالِ حج کا آخری رکن منیٰ میں تین دن کا قیام ہے، جسے امام ؑ نے اِس طرح ادا کیا کہ آپ ؑ کا بدن ِمبارک تین دن تک صحرائے کربلا میں بے گورو کفن پڑا رہا۔

چوتھی خصوصیت:اس کتاب کی ایک اور عجیب بات کہ جو پڑھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ مختلف واقعے اور متعدد حوادث کہ جو ظاہر میں جدا نظر آتے ہیں اور جن کے درمیان کوئی ارتباط و اشتراک نہیں ملتا، انہیں ایک عنوان کے ذیل میں جمع کیا گیا، یہ اس مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان چیزوں میں مشترکات کو تلاش کرکے انہیں مروارید کے دانوں کی طرح ایک رشتہ میں پرو دیا، مثلاً ’باب دہم ‘ میں کہتے ہیں:


’’باب دہم - منقولہ خطابات میںکہ جو زیارات ِ امام حسین ؑ سے مخصوص ہیں اور ان کے علاوہ کسی بھی انبیاء ؑ اور ائمّہ ؑ کے لئے منقول نہیں ، اور ان کی کچھ قسمیں ہیں‘‘:(یہاں تک کہ کہتے ہیں) ’’ آپ ؑ کی کچھ زیارتوں میں’تلبیہ‘ آئی ہے، مثلاً وہ زیارت کہ جو آپ ؑ پر سلام کے بعد آئی: ’’(لبّیک یا داعی اللّٰہ) اورسات بار اس کی تکرار آئی ہے، اور اس کے بعد سات بار ’تلبیہ ‘ دہرانے کی وجہ یوں فرماتے ہیں‘‘: ’’دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سات ’تلبیہ‘ جواب ہیں (یعنی سات لبیک ہیں) امام ؑ کے سات استغاثوں کے لئے جو آپ ؑ نے مختلف مقامات پر فرمائے ،

اول: جب مکہ مکرمہ سے نکلتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے: ’’۔۔۔جو بھی چاہتا ہے کہ میری راہ میں اپنی جان دے ، وہ اللہ سے ملاقات کے لئے اپنی کمر باندھ لے اور ہمارے ساتھ چل نکلے، میں ان شاء اللہ کل صبح مکہ سے نکل رہا ہوں‘‘۔ اس کے بعد ، امام ؑ کے تمام استغاثے ایک ایک کرکے نقل کئے ، یہاں تک کہ ساتویں استغاثہ پر پہنچے، اور یہ وہ استغاثہ تھا کہ جب کربلا میں اشقیاء کے درمیان پھنس گئے تھے، تو بنی اسد کے لوگوں کو جناب حبیب بن مظاہر ؓ کے توسط سے نصرت کے لئے بلایاتھا ، پس دیکھیں کہ شیخ مرحوم نے کس طرح سے متعدد استغاثوں اور مختلف لوگوں کو مدد کے لئے پکارنے کو ایک عنوان کے تحت جمع کیا۔

پانچویں خصوصیت : امام ؑ کی مجالسِ عزاکی تاریخ کوکس عجیب طرح سے بیان کیاکہ جو کہیں اور آپ کو نہیں ملے گا، لہٰذا ’’چوتھے مقصد ‘‘ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا

اول: وہ مجالس کہ جو خلقتِ آدم ؑ سے پہلے ہوئیں
دوم: وہ مجالس کہ جو آدم ؑ کی خلقت کے بعد اور امام حسین ؑ کی ولادت سے پہلے منعقد ہوئیں
سوم : وہ مجالس کہ جو امام ؑ کی ولادت کے بعد اور شہادت سے پہلے ہوئیں
چہارم: وہ مجالس کہ جوآپ ؑ کی شہادت کے بعد اس دنیائے فانی میں منعقد ہوئیں
پنجم: وہ مجالس کہ جودنیا کے فنا ہونے کے بعد روزِقیامت برپا ہوں گی
، اس کے بعد ہر عنوان کے ذیل میں متعدد مجالس مدارکِ معتبرہ سے نقل کیں مثلاً فقط ’عنوان سوم ‘ میں تیس(۳۰) مجالس کا ذکر فرمایا۔

مترجم نے فقط انہی پانچ خصوصیات کا ذکر مختصراًکیا، وگرنہ یہ کتاب بہت زیادہ خصوصیات کی حامل ہے،جیسے امام حسین ؑ پر گریہ کا نماز اور روزہ وغیرہ سے موازنہ، زمینِ کربلا کا دیگر زمینوں سے مقابلہ، امام ؑ کے مدفن کا دیگر مدفنوں سے موازنہ، امام ؑ کی زیارت کا دیگر زیارتوں سے مقابلہ،۔۔۔اسی سبب سے علامہ محقق، آقا بزرگ تھرانی (صاحب الذریعۃ) اس کتاب کی تجلیل و تعظیم میں لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب (خصائص حسینیہ) جلیل ترین کتابوں میں سے ہے کہ جو واقعۂ کربلا پر لکھی گئی ہے بلکہ کسی نے بھی ایسی کتاب نہیں لکھی(۲)‘‘۔

------------------------------------------------------حاشیہ-----------------------------------------------------

(۱)
نہج البلاغۃ کلماتِ قصار نمبر ۸۸ (شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ، پبلشر)
(۲)
نقباء البشر ج۱ ، ص۲۸۶۔