مقدمہ از مصنف بزرگوار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط



آخری سانسوں میں زادِ راہ کا حصول حمد و ثناء اللہ سے خاص ہے، اور بے انتہا درود و سلام اللہ کے خاص بندوں خصوصاً رسولِؐ اسلام اور اولادِ آدم ؑ میں سب سے افضل و اشرف محمد مصطفیٰ ؐ اور ان کے اہلِ بیت ؑ پر کہ جو راہِ ہدایت اور قیامت کے شفیع ہیں۔(صلوات اللّٰہ علیہم ما دامت السماوات و الارضون السفلیٰ)۔

امّا بعد: بندہ ٔناچیز جعفر بن حسین شوشتری(عُفی اللّٰہ عنھما) کہتا ہے کہ جب میں نے دیکھا بُڑھاپا آرہا ہے اور جوانی گزر رہی ہے، بدن کمزوری پر مائل ہے اور عمر ساٹھ سے گزرنے لگی، نہ کچھ حاصل نہ حصول، نہ کوئی پھل نہ استفادہ، آئندہ بھی یہی حال ہوتا نظر آتا ہے، پس اپنے گنہگار نفس کو مخاطب کیا کہ:تمہارا بُرا ہو کب تک یہ غفلت رہے گی؟ جوانی کی بہار خزاں کی بربادی کا نشانہ بن گئی اور بونے کے وقت کوئی بیج نہ بویا، اُس کی فصل نہ اُگی، پس اِن بقیہ دو دِنوں میں کچھ کر گزرو کہ تم نے خرمنوں کو اپنی لا پرواہی سے ضائع کر دیا، تو اب اِن زراعتوں کو جلدکاشت کرلو، سرمایۂ عمر کو تو برباد کردیا اب جو ناچیز باقی ہے اُس کی قدر کرلو۔۔۔

میرے غافل نفس نے تو کانوں میں گویا روئی ٹُھونس رکھی تھی وہ بھلا ہوش میں کب آتامجبوراً میں نے بلند آواز میں اُسے پکارا: اے بے زادِراہ مسافر!پھر سے رہ جائوگے، دیکھو کہ تم نے کیا اُگایاکہ اب فصل کاٹنے کا وقت نزدیک ہے!افسوس اے فریب خوردہ تاجر، اے اپنے نفس اور غیر پر ظلم کرنے والے، تم وہ پرندہ ہو کہ جس کی جستجو میں تمہاری موت ہے اور جس کی کمین میں ہزاروںبلائیں ہیں، جس کی میعاد قیامت اور جس کا منتظر خود اللہ ہے۔

اب بھی یہ آواز اُس غافل کو بیدار نہ کر سکی، پس میں آگے بڑھااور اُسے جھنجھوڑا کہ بیدار ہوجائوکہ یہ گھاٹیاں سخت دُشوارہیں،تمہیں اِنہیں پیدل اور ننگے پائوں ہی عبور کرنا ہے! منزلیں خوفناک اورخالی ہاتھ، تمہارا کام بربادہو چکا، کچھ حرکت کرو جلدی کرو یہ سُستی اور کاہلی کب تک؟

آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ دن سیاہ اور راستہ تنگ ہے، اپنے کانوں کو کھولو اور جنابِ امیر المٔومنین ؑ کے قول کو سنو کہ فرماتے ہیں:ـ’ـاے ریش سفیدبوڑھے اُس وقت کیا کروگے کہ جب تمہاری گردن کی ہڈیوں سے آتشین طوق چپک جائے گی اورتمہا رے بازؤوں کے گوشت کو زنجیریں کھالیں گی(۱)، اِس شوروغوغا پر بھی میں نے نفس میں کوئی جنبش نہ دیکھی تو سمجھ گیا کہ یہ مر چکا ہے ،
پس میں نے اس کے حال پر نالہ و گریہ کیااور عمر عزیز کے کھو جانے پر نوحہ کناں ۂوا


:شعر فارسی جس کا معنوی ترجمہ یہ ہے:
اب نفس نے ذراسی حرکت کی تو مجھے کچھ اُمّید سی ہوئی کہ اُس میں ابھی کچھ رَمق باقی



تب میں نے آہستہ سے کہا: بہرحال اپنے اوپر رحم کرو اور اپنی فریاد کو پہنچو، اِن آخری سانسوں میں زادِراہ مہیّاکرلواور اِس سے پہلے کہ موت آئے اور ’توبہ‘ کا دروازہ بند ہو جائے فرصت کے لمحات کو غنیمت جانو ۔ اتنی آسمانی کتابیں آئیں اورانبیاء و مرسلین ؑ آئے، سب نے تمہیں اِس راستے سے ڈرایا، کیا یہ کافی نہیں؟ کیا تمہیں گمان ہے کہ زمین و آسمان اور ُان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں وہ سب عبث خلق ہوئی ہیں اور کوئی جزاء و سزا نہیں ہے؟ یہ یقین کہاں سے تمہیں حاصل ۂوا ؟کیا تمہیں اطمینان ہے کہ تم نجات یافتہ ہو؟ جونہی اُس نفس نے یہ سخت لہجہ سُناتو ذرا سی اُس میں جنبش آئی اور تھوڑا ساوہ اپنی طرف ملتفت ۂوا، پس پھر میں نے اُسے طلبِ کمال کی تقویت اور مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لئے ’خوف و رجاء‘ کے اسباب بیان کئے کہ جو دو پَروں کی طرح ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے:

اسبابِ خوف و رجاء اوّل سببِ خوف:میں نے دیکھا کہ قبولِ اعمال اور بلائوں سے نجات کا دار و مدار ’ایمان‘ پر ہے، جبکہ اُس کی کوئی نشانی میں نے اپنے نفس میں نہ پائی، نہ کامل اور نہ ہی ناقص ایمان کی، کیونکہ کہا گیا ہے کہ ادنیٰ درجہ ٔ ایمان یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو تو پریشان ہو جائے،تو اعلیٰ درجہ کا کیا بیان کہ انسان ذکرِ خدا کے شوق میں موت پر حاوی ہو!میں نے یہ اجزائے ایمان بھی اپنے میں نہ پائے کہ جو میرے قلب و اعضاء کو متأثر کریں(نہ دل پر کہ جس سے سکون و اطمینان حاصل ہو، اور نہ ہی اعضاء پر کہ جس کے نتیجہ میں میرے حرکات و سکنات اللہ کی خوشنودی کے لئے ہوں)، یہاں تک کہ مجھے خوف لاحِق ہو ا کہ ذرّہ برابر بھی ایمان کے نہ ہونے کے سبب کہیں میں ہمیشہ کے لئے آتشِ جہنم کا مستحق نہ ہوجائوں۔

وہ اوصافِ حمیدہ ذہن میں لایا کہ جو ایمان کا خاصہ ہیں، مگر اپنے میں اُن کے اضداد ہی پائے، وہ اعمالِ صالحہ کہ جن کی قبولیّت مشکل شرط رکھتی ہے ،تمام زندگی انجام دینے سے قاصر رہا۔پس شدّتِ خوف سے قریب تھا کہ میں مأیوس ہوجاتا تو میں نے چاہا کہ اس کا کچھ علاج کیا جائے، یوں دوسری حالت ’اُمّید‘ نے مجھ میںجنم لیا، جب میں نے کرمِ خدا کی طرف دیکھا، میں نے اپنے آپ کو امّتِ محمّدی ؐ کا حصّہ، پیروانِ علیؑ میں شامل اور اہلبیت ؑ کا چاہنے والا پایا کہ جو راہِ خدا اور صراطِ مستقیم ہیں ۔

خلائق کی پناہگاہ ، کشتیٔ نجات وشفیعِ روزِ حساب ہیں۔۔۔چنانچہ میں رحمتِ الٰہی کا امیّدوار ہو گیا۔ اب پھر میں تیسری حالت میں داخل ہو گیا، امّتِ نبی ؐ اور شیعۂ علی ؑ کی کُچھ نشانیاں ہیں، تم نے نبیؐ اور علؑی کی کون سی بات مانی اورکیا اُس پر عمل کیا؟دوستی کی بھی کچھ علامات ہیں، تم اُن میں سے کونسی علامتیں رکھتے ہو؟اب میں نے اپنے اندر شیعیت اور ولایت کی علامتیں تلاش کیں تونہ ملیں، میں دوبارہ لرز گیا او ر وادیٔ قنوطیت میں ڈوب گیا۔ یوں چوتھی حالت مجھ پر ظاہرہوئی اورمیں نے الٰہی وسیلوں پر غور کیاتودیکھا کہ اِن میں امام حسین ؑ کا وسیلہ بہتر ، کامل اور آسان ہے۔ اس کی شرائط بھی کم ہیں اور فائدہ بھی زیادہ ہے، یہ آپ ؑ کی خصوصیّت ہے حالانکہ بقیہ وسائل بھی ہیں اور سب ایک ہی نور سے ہیں۔۔۔

وہ خصوصیّت یہ ہے کہ آپ ؑ: جنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں، کشتیٔ نجات اور چراغِ ہدایت ہیں، جبکہ آپ کے تمام آبائو ؑاجداداور پاک ذُریّت جنّت کے دروازے اور نجات کی کشتیاں ہیں مگر حسینؑی کشتی وسیع تراور ساحل سے نزدیک ترہے، اُس سے نور حاصل کرنا زیادہ آسان ہے، سب ہی مخلوقات کے لئے پناہ ہیں مگر حسینؑی پناہگاہ آسان تر اور اُس کی حدود وسیع تر ہیں۔

اپنے ایمان سے پُر امّید ہو گیا اب میں نے اپنے نفس کو کہا کہ ہاں! اب اِس درگاہ میں داخل ہو جائو، تاکہ محفوظ رہو، اِ س کشتی میں سوار ہوجائو تا کہ ساحل تک پہنچو، اِس نور کو دیکھوتا کہ راہِ ہدایت کو پا لو، پھر میں نے اِس عزم کو مضبوط کیا اور غورسے دیکھا توایمان کی نشانیاں اِس نسبت سے پائیں، یوںاپنے ایمان سے کچھ پُر امّید ہو گیا، اِس کی چند وجوہات ہیں: پہلے یہ کہ:امام ؑسے منقول ہے کہ میں کشتۂ گریہ ہوں یعنی جب بھی کسی مؤمن کے سامنے میرا ذکر ہوگا وہ گریہ کرے گا(۲)، یہ صفت تمام انبیاء ؑ میں تھی اور میں نے یہ صفت اپنے اندر بھی پائی تو پُر امّید ہوگیا کہ کم از کم وہ ذرّہ کہ جو مجھے آتشِ جہنّم سے بچا سکتا ہے وہ مجھ میں موجودہے۔ دوسرے یہ کہ:میں اپنے کو ایامِ محرّم میں مغموم و محزون پاتا ہوں، خود یہ صفت ائمّہ طاہرین ؑکی صفات میں سے ہے، یوں مجھے لگا کہ مجھ میں بھی اُن کی ولایت کا کچھ أثرہے۔

جیسا کہ کہا گیا کہ : چند روایات کے مطابق،’ ہمارے شیعہ ہماری طینت سے ہیںاور ہمارے نور سے اُن کا خمیر گوندھا گیا ہے، پس ہماری مصیبت اُن کی مصیبت ہے(۳)،بہت سی احادیث میں ہے کہ ائمّۂ طاہرین ؑ محرّم کے دنوں میں مغموم رہتے تھے اِسی طرح جناب امام صادقؑ کو اِن دنوں میں کسی نے ہنستا ہوا نہیں دیکھا (۴)۔ امام رضا ؑ پورے عشرے میں محزون و مغموم رہتے تھے اور مجلسِ عزامیں فقط خود نہیں بیٹھتے بلکہ پردے کے پیچھے خواتین کو بھی بٹھاتے ، اور اگر کوئی مرثیہ خوان آجا تا تو اُسے حُکم دیتے کہ مرثیہ پڑھو، جس طرح’دِعبلِ خزاعی‘ کا واقعہ مشہور ہے (۵)، اور اگر کوئی نہ ہوتا تو خودبنفسِ نفیس مصائب کا ذکر کرتے۔ ’ریّان بن شبیب‘ والی حدیث میں ہے کہ وہ پہلی محرّم کو امام رضا ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؑ نے فرمایا: اے ابن شبیب!جب بھی کسی چیز پر گریہ کرو، تو حسین ؑ پر گریہ کرو کہ اُنہیں گوسفند کی طرح ذبح کیا گیااور اُن کے ساتھ اہلبیت ؑ کے اٹّھارہ جوان مارے گئے(6)۔

یہی حال باقی ائمّہ طاہرین ؑ کا تھا۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی محرّم سے دل شکستگی، اہلبیت ؑ سے محبّت کی علامت ہے، یوں استدلال کیا جا سکتا ہے کہ ایمان کے مختلف مراتب اِسی صفت سے پہچانے جا سکتے ہیں، یایہ کہنا کہ کسی کواُن سے محبت ہی نہیں کہ جو سلبِ ایمان کی نشانی ہے یا نفرت ہے کہ جو اُن ہستیوں سے دشمنی کی علامت ہے، جیسا کہ بعض مخالفین کی آبادیاں ہیں کہ جہاں اِن ایّام کو خوشی اور تفریح کی علامت گردانتے ہیں ۔ خَذلَھُمُ اللّٰہُ وَ اَخْزَاھُمْ فِی الدَّارَیْن۔ سرزمینِ کربلا پہنچتے وقت تیسرے یہ کہ : جب میں نے کربلا کو دیکھا اور اُس سرزمین پر پہنچا تومیں نے خود کو مہموم ومحزون پایا ،وہ زمینِ کرب وبلا تھی! یہ بھی صفاتِ جناب امیر ؑ میں سے ایک صفت ہے (7)، اِسی طرح جناب زینب ؑکبریٰ کی حالت ہوئی، جیسا کہ بعض روایات میں ملتا ہے(8)۔

اِسی کے مثل جب امام ؑ کی قبرِ مبارک اور آپ کے فرزندِ ؑعزیزکی قبر کوآپ ؑ کے پائوں کی جانب ملاحظہ کیا تودل متأثر ہوا، کہ جو ایمان کی نشانیوں میں سے ہے، چنانچہ بعض احادیث میں ایسا آیا ہے(9)۔ چوتھے یہ کہ:جب میں نے تربتِ حضرت ؑ کو سونگھا تو میری آنکھیں نم ہو گئیں، یہ خود حضورِ اکرم ؐ کی صفات میں سے ہے، کہ جس کا بیان اِسی کتاب کے کچھ ُمندرجات کے ذیل میں ذکر ہوگا۔ انشاء اللّٰہ۔ علاوہ از ایں، نماز و روزہ وغیرہ جیسے اعمالِ صالح کی شرائط ِ قُبولیّت اُس طرح سے اپنے اندر نہیں پاتا ہوں، مگر میں نے محسوس کیا کہ اماؑم پر گریہ ہی حقیقی گریہ ہے ، اِسی طرح رُلانا، اور کم از کم تو مجھے یقین ہے کہ میں نے زور زبردستی سے رونے کی کوشش تو کی اوراِس سے عاری نہیں رہا،تو پھر میں اِ س حدیث میں تو شامل ہو ہی گیا ’مَنْ بَکیٰ أو أبْکیٰ أو تَباکیٰ وَجَبَْت لَہُ الْجَنَّۃُ ‘ [جو روئے یا رُلائے یا رونے کی کوشش کرے ، اُس پر جنّت واجب ہے] (10)۔

اب میری اُمیّد کچھ بندھ سی گئی تھی اور دل بھی مطمئن ہو چلا تھا کہ اچانک مجھ پراب پانچویں حالت نے حملہ کر دیا!کہ اچھامان گئے، اگرایمان کے ایک حصہ کو تم نے پا ہی لیا کہ جو تمہیں دائمی عذاب سے بچاسکتا ہے توبرزخ و قبر کا عذاب اور حشر و نشر کی تکلیفوں کو کیا کروگے؟ تم تو دنیا کی ہلکی پھلکی مشکل برداشت نہیں کر پاتے ،بلکہ نعمت بھی زیادہ ہو جائے تو تم تھک جاتے ہو!تو اُن مشکلات کو کیونکر تحمّل کر پائوگے؟ بلکہ شاید ایمان کا یہ ذراسا حصہ مصیبت آنے اور شیطانی وسوسوں کے سیلاب میں بہہ جائے، پھر تم اُس وقت کیا کروگے؟ میں پھر ایک بارخوف و اضطراب کا شکار ہو گیا، اور یوں چھٹی حالت نے مجھ پر غلبہ کیا، کہ میں نے محسوس کیا کہ وسائلِ حسین ؑ میں ایسی بھی چیز ہے کہ جو ایمان کی تقویّت کا سبب بن سکتی ہے، اور وہ امام ؑ کی زیارت ہے کہ جو روایات کے بقول عرش پراللہ کی زیارت کی مانند ہے (11)، اور یہ قربِ الہٰی کے کمال کی طرف اشارہ ہے کہ جو مومنِ کامل کی صفت ہے، نہ وہ جن کا ایمان ثابت نہ ہو اور وہ ہدایت کے بعد گمراہ ہو جائیں،پس پتہ چلا کہ امام عالی مقام ؑ کی زیارت کمالِ ایمان کا سبب ہے۔

اِسی طرح روایات میں اِس تعلّق سے منقول ہے کہ جب کوئی زائر واپس پلٹنے لگتا ہے، تو ایک فرشتہ اُس کے پاس آکر کہتا ہے : تمہاراخدا تمہیں سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: ’اب عمل کو از سرِنو شروع کرو کیونکہ تمہارے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے‘(12)۔ پس جب خدا نے سلام بھیجا ہے تو یقینا اُسے کفر و نفاق سے محفوظ کردیا ، یوں مجھے دلی اطمینان حاصل ہو گیا، ایک بار پھر ساتویں مرحلۂ خوف میں داخل ہوگیا کہ مانا جو کچھ ذکر ہوا وہ حسنہ شمار ہو جائے لیکن شاید تمہارے گناہ کے سبب وہ حبط ہو جائیں، پھر اضطراب نے میرے اندر حلول کیا، اور آٹھویں حالت نے اُمّید دلائی کہ’حبط‘ خود عامل کا عمل ہو سکتا ہے ، جبکہ یہ (زیارت )خود اُس کا عمل نہیں ہے بلکہ حسینؑی وسائل کے سبب اُس کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے حالانکہ وہ اُس کا عمل نہیں ہوتاکہ وہ حبط ہو جائے، جیسا کہ امام ؑکی زیارت کی فضیلت میں آیا ہے کہ زائر کے لئے ایک یا زیادہ حج، رسولِؐ اکرم کے حج سے ہیں ، اور معلوم ہے کہ رسوؐلِ گرامی کا حج خود اُس زائر کا عمل تو نہیں جو حبط ہو سکتا ہے اور آنحضرؐت کا حج تو یقینا مقبول ہی ہوگا۔
--حاشیہ--
(12) تھذیب ۶؍۴۳۔ وسائل ۱۰؍۳۴۲ حسین ؑ رسولِ اکرمؑ کی آغوش میں عجیب روایات میں سے ایک روایت امام صاد ؑق سے منقول ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا: ایک دن امام حسین ؑ رسولِ ؐاسلام کی آغوش میں تھے ، اور آپؐ ناز برداری کر رہے تھے، کہ جناب عائشہ نے عرض کی : آپؐ کو اِس بچّے سے کس قدرپیارہے؟ فرمایا: ’اِس کو کیوں نہ چاہوں کہ یہ میرے دل کی ٹھنڈک اور آنکھ کا نور ہے اور یقینا اِسے میری امّت قتل کرے گی! پس جو بھی اِس کے مرنے کے بعد اِس کی زیارت کرے گا، اللہ اُس کو میرے حجّوں میں سے ایک حج لکھے گا، پوچھا: ایک حج آپ کے حجوں میں سے؟ فرمایا: بلکہ میرے حجوں میں سے دو حج ، عرض کی : دو حج آپ کے حجوں میں سے ؟ فرمایا: ہاں!بلکہ میرے حجوں میں سے چار حج، اِسی طرح وہ تعجب کر تی رہیں اورآپؐ اضافہ فرماتے رہے، یہاں تک کہ بات رسول اکرؐم کے نوّے حج و عمرے تک پہنچ گئی(13)۔ پس ذرا پُرامّیدہوگیالیکن یوںنویں حالت نے مجھے ڈرادیا کہ’ حقوق الناس‘سے ٍچشم پوشی عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ کوئی شخص میدانِ حشر میں لایا گیا ، اُس کے اعمال صحرائے قیامت میں ضوء فشانی کر رہے تھے کہ اتنے میں ردّ مظالم کے لئے افراد آئے اور اُس کے اعمال لے گئے اور اپنے گناہ اُس پر ڈال گئے اور اُسے آتشِ جہنم میںڈال دیا گیا(14)،
--حاشیہ--
(13)بحار ۹۸؍۳۵۔ کامل الزیارات باب ۲۲ص۶۸۔ (14)بحار ۷؍۲۷۰۔ پس ایک بار پھر خوف کا شکار ہوا اور دسویں حالت میں آگیا اور دیکھا کہ منقول ہے کہ امام حسین ؑ پر گریہ کے ثواب کی کوئی انتہا نہیں ہے (15)، یوں مجھے امّید ہو گئی کہ ردّ مظالم کے سلسلہ میں جتنے بھی اعمال لے جائیںپھر بھی ختم نہیں ہونگے۔ یہاں سے گیارہویںحالت کی طرف نکل گیا، متعددروایات کے مطابق، اعمال کے قبول ہونے کی شرط نماز کی قبولیّت ہے (16)،خود اپنے آپ سے کہا کہ شاید تمہاری نمازیں قبول نہ ہوئی ہوں اور اُس کے نتیجہ میں تمام اعمال رد ّ ہو گئے ہوں، پس میں پھر مشکل کا شکار ہو گیااور قنوطیّت کا غلبہ ہونے لگا کہ اچانک بارہویں حالت نے ظہور کیا اور امّید دلائی، اور اِس کے ساتھ ہی متضاد احتمالات کا یہ سلسلہ ختم ہوا، جس کے نتیجے میںمیری اُمّیدمحکم ہو گئی کیونکہ امن و اطمینان کی صورتیں پے در پے ظاہر ہونے لگیں ، اور میں نے دیکھا کہ حسینؑی وسیلوں کے عجیب و غریب خصوصیّات ہیں: یادِ حسین ؑدل نرم و پُر سوز کرتی ہے ایک تو یہ کہ:اِن وسائل کا ثواب، نوافل منقولہ سے کئی گُنازیادہ ہے اور یہ (نوافل) خود فرائض کی قبولیّت میں مؤثّرہوتے ہیں(17) ، توپھر یہ وسائل کیونکر مؤثّر نہ ہوں گے؟ پھر یہ کہ: قبول و حبط کی شرائط ،اُن اعمال وعبادات میں ہوتی ہیں کہ جہاں عامل اپنے اختیار، قصد ِ قربت اور زحمت سے انہیں انجام دیتا ہے، جبکہ اِن وسائل میں ایسا عمل
--حاشیہ--

(15)بحار۴۴؍۲۸۵۔کامل الزیارات باب۳۲ص۱۰۳
(16)
وسائل الشیعہ۳؍۲۲
(17)
وسائل الشیعہ ۳؍۵۲ باب ۱۷ (متعدد روایات ہیں)

بھی ہے کہ جس پر بہرحال ثواب ملتا ہے، چاہے وہ اختیار و قصد کے بغیر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے، اور وہ امام حسیؑن پر دل شکستگی اور اُن کے مصائب پر گریہ ہے کہ کبھی یہ گریہ قصد ِ قربت واختیار کے ہوتا ہے اِس صورت میں اعمالِ صالح میں شامل ہوتا ہے ، یوں قبول و ردّ کے قابل ہوتا ہے۔ کبھی یہی عمل اختیار و قصد کے بغیر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اِن مصائب کو سنتا ہے اور بغیر صاحبِ مصیبت کو پہچانے ہوئے کہ امام تھے یا مسلمان تھے بلکہ اگر مخالف بھی ہونے کا گمان ہو تب بھی رقّتِ قلب اُس پر طاری ہوجاتی ہے، وہ بے اختیار رونے لگتا ہے، ۔۔۔۔ ۔ وہ کیونکر نہ روئے جبکہ سُنے کہ کسی کا ننھّا سا بچّہ شدّتِ پیاس سے اُس کی آنکھوں کے سامنے دَم توڑ دے، یا اُسے باپ کے سینے پرشہید کردیں جبکہ باپ دیکھ رہا ہو،یا اُس کے لئے باپ پانی مانگ رہا ہو تو اُس بچّے کو تیر سے شہید کر دیں، یا کسی کی لاش کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پائمال کردیں اور اُس کے سر کو چھَڑی اور تازیانوں سے ماریں اور درخت پر لٹکادیں، یا اُس کی قبر کو دو سو سال بعد نبش کریں، یقینا کوئی کتنا بھی قسی القلب کیوں نہ ہو اِنہیں سننے کے بعد متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااور جب رقّت ہو گی تو رحمتِ الہٰی اُس کے شاملِ حال ہو جائے گی۔

منقول ہے کہ جب حضرت یونس ؑ ، شکمِ ماہی میں قارون کے پاس سے گزرے جس وقت قارون کو زمین نگل رہی تھی، تو اُس نے جناب یونس ؑ کی آواز سُنی اورموسیٰ ؑ و ہارون ؑ و کلثوم و آلِ عمران کے بارے میں پوچھا، جناب یونس ؑ نے اُن کی موت کی خبر دی، قارون نے افسوس کا اظہارکیا، کہا: افسوس آلِ عمران پر، تو اللہ نے اِسی بات پر اُس پر رحمت نازل فرمائی اور یوں اُس سے دنیا کا عذاب اُٹھالیا(18)،پھر میں کیوں پُر امّید نہ ہوں جبکہ میں ہمیشہ آلِ ابراہیم ؑ، آلِ عمران ؑ اور آلِ محمّد ؑ(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِیْن) کے مصائب پر غمگین رہتا ہوں ۔

امام ؑ کے زائرنہرِکوثر پر ساقی ہونگے کُلّی مؤثّرکے سامنے اگر کوئی رکاوٹ آجائے، تو غالبا ًمکمّل طور پر تأثیر سے مانع نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ پھر بھی باقی رہتا ہے، پس جب بھی میری کوئی غلطی وسائلِ حسینؑیّہ کی اثر گزاری سے مانع ہو تولامحالہ ذرا سا اثر تو باقی رہے گااور میں اُسی پر قناعت کر لوں گا، مثال کے طور پرامام ؑ کے زائرین کے بارے میں نقل ہے کہ اُن کی شفاعت دس لوگوں کے لئے قابلِ قبول ہوگی ، یا سو افراد کے لئے(19)، یا کہتے ہیں کہ جس کا چاہیں ہاتھ پکڑیں اور بہشت میں داخل کردیں(20)، جب میں خود کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ جہنّم کے دروازے کُھلے ہیں، بلکہ مجھے غُل وزنجیر میں جکڑا جانے والا ہے اور آتشِ جہنّم میں ہمیشہ کے لئے دھکیلا جاسکتا ہے، پس مجھے کوئی خواہش نہیں کہ میںمحشر کے شفیعوں میں قرار دیا جائوں
--حاشیہ--
(18)بحار ۱۳؍۲۵۲۔ تفسیرِ قمّی ؒ ۱؍۳۱۸ (سورۂ یونس ؑ)۔ (19)بحار۹۸؍۷۷۔کامل الزیارات باب ۶۸ص۱۶۵ (20)بحار ۹۸؍۲۷ ۔کامل الزیارات باب ۶۸ص۱۶۶۔ بلکہ میں اِسی پر قانع ہوں کہ کوئی میری دستگیری کرے اور قیامت کی مشکلات سے نجات دلائے، یا کچھ مدّت گزرنے کے بعد جہنّم سے نکال لے تا کہ میں ہمیشہ کے لئے جہنّم کا ایندھن بننے سے بچ جائوں۔

نیز منقول ہے کہ امام حسیؑن کا زائرعرش پر اللہ سے ہمکلام ہوتا ہے(21)اور چونکہ میں اپنے آپ کو اِس قابل نہیں سمجھتاتو میں اِسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ ملائکہ ٔرحمت سے کوئی مَلک مجھ سے ہم سخن ہو جائے۔ نیز یہ بھی روایت میں ہے کہ آپ ؑکا زائرکوثر کے کنارے سقّائی کرے گا (22)۔میں چونکہ اِس قابل نہیں تھا بلکہ جہنّم میں جنّتیوں سے کہنے والوں میں سے تھا کہ مجھے کچھ پانی پلادو (23)، پس میں شکرگزار ہوں کہ کوثر کے ساقیوں میں سے کوئی مجھے سیراب کردے۔ یہ بھی نقل ہے کہ اِس امام ؑ کا زائر رسولِ اسلاؐم کے ساتھ دسترخوان پر بہشت میں ہوگا (24)۔ میں تو اِس مقام کے بھی قابل نہ تھا ، بلکہ مجھے تو قبول ہے کہ میں زقُّوم کے کھانے سے نجات پاجائوں، یقینا اِس عظیم عمل کی برکتیں بے شمار ہیں ، بقیہ میں آئندہ کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔ ( اِنْشَآئَ اللّٰہ)۔
--حاشیہ--
(21)بحار ۹۸ ؍ ۷۳۔ کامل الزیارات باب ۵۴ص۱۴۱۔ (23)بحار ۹۸؍۷۹۔کامل الزیارات باب ۴۴ص۱۲۴۔ (22)سورہ اعراف آیت ۵۰۔ (24) بحار۹۸؍۶۶۔کامل الزیارات باب ۵۲ص۱۳۷ علاوہ ازایں یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کے لئے ایک ہی وقت میں امام ؑ سے منسوب تمام وسائل جمع ہو جائیں، درجۂ ادنیٰ یعنی ـ’تباکی‘ سے لے کر درجۂ اعلیٰ یعنی ’امام ؑ کی رِکاب میں شہادت‘ تک اور یوں وہ ایک ہی وقت میں تمام عبادات انجام دیدے۔ مثلاً جب بھی کوئی مجلس برپا ہو اور اُس میں آپ ؑ کے مصائب بیان ہوں، اور اُس شخص کو ابکاء، بکاء ، تباکی، حزن، رقّت، قلبی توجّہ آپ ؑ کی طرف ہو،اشعار و درود سے دل میں آپ ؑ کی جلالت و عظمت محسوس ہو، وہ حقیقی معرفت کی جانب بڑھے، آپ ؑ کے لئے گریہ و زاری کرے، اِسی حال میں امام ؑ کی مدد کرنے کا جذبہ ُابھرے اور اُن کی رِکاب میں شہادت کا شوق اُٹھے،تو یقینا خدا کی تمام عبادات انجام دینے کا ثواب اُس نے حاصل کرلیاحتیّٰ آپ ؑ کی معیّت میں شہادت حاصل کرنے کا ثواب! اِس کے ثبوت کے لئے أحادیث دلیل کے طور پر آئیںگی(25)۔

عزاداریٔ حسین ؑ کی مجالس چودہ خصوصیات رکھتی ہیں یہ مجالس مقدّس مقامات کی چودہ صفات رکھتی ہیں، اور وہ صفات یہ ہیں: پہلی صفت : یہ خدا کا مصلّٰی ہیں،یعنی یہاں موجود افراد پراللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ دوسری صفت: فرشتے یہاں آتے ہیں۔
--حاشیہ--
(25)اِن جملوں کی تفصیل کتاب کے متن میں آگے آئے گی۔ تیسری صفت: یہاں رسولؐ اکرم اور ائمہ طاہرین ؑ کی دعائیں ملتی ہیں۔ چوتھی صفت:یہاں امام حسین ؑ کی خاص نگاہ ِ التفات ہوتی ہے۔ پانچویں صفت: جو لوگ یہاں آتے ہیں امام ؑ اُن کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ چھٹی صفت: ایسی مجلسیں امام جعفر ؑ صادق کو پسند ہیں۔ ساتویں صفت:یہ عرَفات کی طرح ہیں۔ آٹھویں صفت:یہ مشعرَ الحرام کی مانند ہیں۔ نویں صفت:یہ حَطیم کی مانند ہیں۔ دسویں صفت: یہ بیتُ اللہ کے مطاف(یعنی طواف کی جگہ) جیسی ہیں۔ گیارہویں صفت:یہ مجالس قُبّۂ حسیؑن کی طرح ہیں۔ بارہویں صفت:یہ مجالس جہنّم کی آگ ٹھنڈی کرنے والی ہیں۔ تیرہویں صفت:یہ آبِ حیات کا سر چشمہ ہیں۔ چودہویں صفت:یہ اُن مجالس کا تسلسل ہیں کہ جو خلقتِ کائنات کی ابتداء سے میدانِ حشر تک بپا ہورہی ہیں ، اِن کی تفصیل آئے گی ( اِنْشَآئَ اللّٰہ )۔

جب اِ ن تمام اُمور کو میں نے ملاحظہ کیا ،توسوچا کہ کیسے میں مایوس ہو جائوں، اتنے سارے مقامات و حالات، اعلیٰ عبادات، اجتماعِ صفات، اور پھر مسلسل برکات؟ اگر پھر بھی کوئی مانع ہو تو کچھ نہ کچھ اثر توباقی رہے گا، میرے لئے وہی کافی ہے: ؔ (شعر کا ترجمہ: تیری کمترین عنایت بھی کافی ہے کیونکہ اُس کمترین کوبھی’ کم ‘ نہیں کہہ سکتے) اب جبکہ مجھے یقین ہو چلا ہے، تو میں نے اپنے نفس کی سرزنش ترک کر کے بڑی اُمّیدسے امام حسین ؑ کے دامنِ کرم سے تمسّک کیا ، اور اِسے مزید تقویّت دینے کے لئے اِس کتاب کی تألیف شروع کی، کہ جو آپ ؑ کی خصوصیات پر مشتمل ہے۔یہ خصوصیات تمام مخلوقاتِ الہٰی،حتّی انبیاؑء و ائمّہ طاہرین ؑ سے ممتاز ہیں، اور اِسے میں نے ’خصائص الحسین و مزایا المظلوم‘ نام دیا۔خداسے اُمّید ہے کہ وہ اِسے میری قبرو نشور کے لئے خزینۂ وافر،سرمایہ ٔذاخراور ذکر ِکثیر کی بقا ء کا سبب قرار دے۔ وَمَا تَوفِیقِی ِالّا بِاللّٰہ، عَلَیہِ تَوَکَّلتُ وَاِلَیہِ اُنِیبُ۔

اِس کتاب کی ترتیب اور بارہ عناوین اِسے ایک مقدّمہ اور چند مقاصد پر مشتمل قرار دیا، کہ جو یوں مُعنْو َن ہے:

مقد ّمہ: کہ جو مطالبِ کتاب کی اجمالی فہرست پر مشتمل ہے،اور بارہ عنوانات کے تحت بیان ہوگا، وہ کچھ یوں ہے:

٭ پہلاعنوان:امام ؑ کی اُن خصوصیات کاذکر جو عوا لم ِموجود و شہود میںہیںیعنی اولِ خلقت سے آخری لمحات تک، اور اُس میں سات مقاصد ہیں: -پہلا مقصد:امام ؑ کی وہ خصوصیات جو آپ ؑ کے نورِ اطہرکی خلقت کی ابتداء سے ہیں۔ -دوسرا مقصد:آپ جناب ؑ کی وہ خصوصیات کہ جو نورِ پاک کے مختلف عوالم میں منتقل ہونے سے تعلّق رکھتے ہیں، عالمِ ذرّواشباح، پُشتِ آدم ؑ میں اُس کا اثر، شجرۂ بہشت میں منتقل ہونا، دنیا کی طرف آنا، اور حمل کی خصوصیات۔ -تیسرا مقصد:ولادت اور طفولیّت کے مراحل کی خصوصیات۔ -چوتھا مقصد:آپ کی شہادت گاہ کی خصوصیات۔ -پانچواں مقصد: اُن مقامات کی خصوصیات جہاں آپ ؑ کی شہادت کے بعد آپ ؑ کا سرِ مبارک ، روحِ شریف اور جسمِ پاک رہا۔ -چھٹا مقصد:آپ ؑ کے قیامت میں آنے کی خصوصیات۔ -ساتواں مقصد: روزِ حشر ختم ہونے کے بعد آپ ؑ کے مقام کی خصوصیات۔

٭دوسراعنوان: زندگی میںامام ؑ کی صفاتِ حمیدہ اور اخلاقِ پسندیدہ ، عبادات و طاعات کی خصوصیات۔



٭تیسرا عنوان:روزِ عاشورہ آپ ؑ کی صفات و اخلاق و عبادات کی خصوصیات کہ جیسے: ظاہرہ و باطنہ عبادات اور مکارمِ اخلاق کاجمع کرنا،ایسی عبادتوں کا ظہور جن کا ملاپ ممکن ہے، نیز ایسی عبادتوں اور صفات کا جمع کرنا کہ جو اضدادکے جمع کرنے جیسا ہے، تمام بلاء و مصیبت کا جمع کرنا، اُنہیں برداشت کرنا اوراُس پر شکر کرنا، تمام عبادات کا جمع کرناکہ جو آپ ؑ سے مخصوص ہے۔

٭چوتھاعنوان :اللہ کی جانب سے آپ ؑ کی نسبت ا حترام و الطافِ خاصّہ کا بیان ہے، کہ جن کی آٹھ ا قسام ہیں:

…پہلی قسم: آپ ؑ کی نسبت خاص الطافِ الہٰیہ کی تعبیرات کی خصوصیات میں ہے۔ …دوسری قسم:جو آپ ؑ کو صفاتِ الہٰیہ عطاء کی گئیں ، اُن کے بارے میں ہے۔ …تیسری قسم:جو آپ ؑ کوکلامِ مجید یاکوئی اور کلام اللہ سے عطاء ہوا ہے۔ …چوتھی قسم: جو آپ ؑ کو افضلِ مخلوقات یعنی ’رسولِ ؐاسلام‘ سے عطاء ہوا ہے۔ …پانچویں قسم:جو آپ ؑ کو سب سے عظیم مخلوق یعنی ’عرش‘ سے ملا ہے۔ …چھٹی قسم:جو آپ ؑ کوبہترین مخلوق یعنی ’بہشت‘ سے ، دیا گیا ہے۔ …ساتویں قسم:جوآپ ؑ کو بقیہ مخلوقات سے عطاء ہوا ہے۔ …آٹھویں قسم: ولادت کی ابتداء سے لے کر قیامت تک آپ ؑ کے خاص احترامات کا بیان۔

٭پانچواں عنوان:آپ ؑ کی نسبت ا للہ کے خاص لطف کے مظہرکا بیان۔

٭چھٹا عنوان:آپ ؑ کے ذکر پر خشوع ، رقّت وگریہ کی خصوصیات سے متعلّق ۔

٭ساتواں عنوان:امام عالی مقام ؑکی زیارت کی خصوصیات۔

٭آٹھواں عنوان:قرآن ِ مجید سے متعلّق آپ ؑ کی خصوصیات۔

٭نواں عنوان: کعبہ شریف سے آپ ؑ کی خاص نسبت، اِس میں چار مقاصد ہیں:

…پہلا مقصد:آ پ ؑ خود حقیقتاً بیت اللہ ہیں۔ …دوسرا مقصد:امام حسیؑن نے خانۂ کعبہ کی ایسی تعظیم کی کہ جس کے سبب اللہ نے آپ ؑ کو خاص فضیلت دے کر وہ صفات عطاء فرمائیں کہ جو کعبۂ محترم کی صفات سے مشابہ ہیں، مگر ایک فرق ہے کہ آپ ؑ کی اُن صفات کے بیان سے گریہ ہوتا ہے۔ …تیسرا مقصد:آپ ؑ کی زیارت کا ثواب حج و عمرہ کے ثواب کے برابر قرار دینے میں بھی خصوصیت ہے۔ …چوتھا مقصد:آپ ؑ کو بیت اللہ قرار دے کر خاص حجاّج آپ ؑ کو عطاء کئے، پس آپ ؑ کے اصحاب کا حجّ خاص ہے، آپ ؑ کے اہلِ حرم کا حجّ جدا ہے ، اسی طرح انبیاء ؑ و ملائکہ کا حجّ الگ قرار دیا۔

٭دسواں عنوان:فرشتوں کے حوالے سے آپ ؑ کی خصوصیات۔

٭گیارہواں عنوان:انبیاء عظام ؑ کی نسبت سے آپ ؑ کی خصوصیات۔اِ س میں چند مقاصد و ابواب ہیں اور ہر ایک نبی ؑ کے لئے ایک باب الگ سے مخصوص ہے:

بابِ آدم ؑ، بابِ نوح ؑ، بابِ ادریس ؑ، بابِ ابراہیم ؑ، بابِ اسماعیل ؑ، باب ِ یعقوب ؑ، بابِ یوسف ؑ، بابِ صالؑح، بابِ ہود ؑ، بابِ شعیب ؑ، بابِ ایّوب ؑ، بابِ ز کریا ؑء، بابِ یحيٰؑ، بابِ اسماعیل ؑصادق الوعد، بابِ موسیٰ ؑ، بابِ دائود ؑ، بابِ سلیمان ؑ، بابِ عیسیٰ ؑ۔

٭بارہواں عنوان: آپ ؑ کی وہ خصوصیات جو خاتم المرسلین ؐسے منسوب ہیں۔ یہ عنوان ا ختتامِ کلام ہے ، اللہ اِسے بہترین اختتام قرار دے۔ (آمین) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

------------------------------------------------------حاشیہ-----------------------------------------------------
(۱)
نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۲
(۲)
بحار : ج۴۴؍ص۲۸۴۔ امالی صدوؒق مجلس ۲۸ ص۱۱۸۔
(۳)
منتخب طریحی۲؍۷ ۲ٍ (۴)
بحار۴۴؍۲۸۰۔کامل الزیارات ص۱۰۱ باب ۳۲(مضمون ِ روایت میں کچھ اختلاف کے ساتھ)
(۵)
ارشادِ مفیدؒ ۲؍۲۵۵۔
(6)
بحار ۴۴؍۲۸۶۔ امالی صدوؒق مجلس۲۷ص۱۱۲
(7)
بحار ۴۴؍۲۵۲۔ امالی صدوؒق مجلس۸۷ ص۴۷۸۔
(8)
منتخب طریحی ۲؍۱۲۷ مجلس ۹۔
(9)
بحار ۹۸؍۷۳۔ کامل الزیارات باب ۱۰۸ص ۳۲۵
(10)
بحار ۴۴؍۲۸۸۔ لہوف سیّد ابن طائوس ؒ ص۵۔
(11)
بحار ۹۸؍۷۷۔ کامل الزیارات باب ۵۹ص۱۴۹۔