عنوانِ پنجم
امام ؑکی نسبت خاص لطف ِ ربانی
کے بیان میں
عنوان پنجم:لطف خاص کہ جواللہ کی جانب سے آپ ؑ کو عطا ہوئی، کہ اللہ نے اپنا دستِ پُر برکت امام حسین ؑ کے سر مبارک پر رکھا، جیسا کہ پہلے بھی اس کی طرف اشارہ ہوا، اس لطف کا ظہور دو چیزو ں میں ہے:
ایک: جو خود آپ ؑ تک پہنچااور یہ وہ مرتبہ ہے کہ جو قرب ِ الٰہی کا ہے لیکن ہم اس کے تصور کا اختیار نہیں رکھتے اور اس کا ایک اثر یہ ہے کہ آپ ؑ کی ذریت میں ’امامت‘ رکھی ہے۔
دوسرے: جوہر مخلوق کو ان کے واسطہ سے ملتا ہے کہ وہ بہت زیادہ ہیں ، انہیں میں ایک آپ ؑ کی تربت میں ’شفاء‘ رکھی نیز ’اجابتِ دعاء‘کو آپ ؑ کے قبّہ کے نیچے رکھا(۱)، سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ ؑ کواپنی’ رحمت ‘کے لئے سببِ اعظم قرار دیاکہ جو اس عالم کی خلقت کا اصلی سبب ہے ، چونکہ رسول اکرم ؐ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘قرار دیا ہے پس امام حسین ؑ کوان سے اور انہیں امام ؑ سے قرار دیا، پس آپ ؑ کو دستِ رحمت کی جگہ قرار دیا، رحمت اُس سے ہے ، دستِ رحمت نے اُسے غنی کردیا، تربیت دامنِ رحمت میں ہوئی ، دودھ
رحمت سے پیا، آپ ؑ کاخون اور گوشت رحمت سے نموّ ہوا، رحمت کی آنکھوں کا نور ہے ،
ریحانۂ رحمت ہے، اس کے بیٹھنے کی جگہ سینہ ٔ رحمت،اس کا مرکب دوشِ رحمت ہے،وہ
معدنِ رحمت، مجمعِ اسباب ، جامعِ وسائل ہے، چشمہ ٔ رحمت کا منبع، رحمت کے آئینہ کا مظہر
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴/۲۳۱، امالی طوسی ؒ ۱/ ۳۲۵۔
اور موادِ رحمت کا محرک ، اس پر رحمت ہے ،استحقاقِ رحمت ِ مکتوب اس سے متحقق ہوتی ہے، اور وہی ہے رحمتِ موصولہ و مرحومہ ، پس کیا تیرے دل میں اس کے لئے رحمت ہے کہ تو اس پرگریہ کرے تاکہ ربّ رحمت تجھ پر رحمت کرے؟ تجھے کہیں : ’’صلَّی اللّٰہ علیک‘‘ اے صاحبِ رحمت و راحمِ رحمت، اور یہ عنوان وسائلِ رحمت کا ہے، کہ جو اجمالاً آپ ؑکے سبب سے متحقق ہوتا ہے اور اس کا تفصیلی اور عمومی بیان تمام نیکیوں اور اخلاقِ نفسانیہ کے معادل ہے اس کے بیان سے پہلے دو مقدّمے ذکر کرنا ہیں:
پہلا مقدّمہ: خلقت کا ھدف، عبودیت ہے
مقدّمہ ٔاوّل: [’’ایحسب الانسان ان یترک سُدیٰ ،ترجمہ:کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا(۱)]۔ اور تم سے کوئی کام نہیں لیا جائے گا، تیرا خالق حکیم ، غنی اور قادرہے اور ہرگز لغو و عبث کام انجام نہیں دیتا، اور تمہیں خطاباتِ تکوینیہ نے عدم سے وجود بخشا، پس تم کچھ عرصہ خاک رہے، پھر نطفہ بنا ، اس کے بعد علقہ پھر مضغہ ہوا، پھر ہڈّیاں بنیں، اور ان پر گوشت آیا اور انسان بنا، اور عقل عطا ہوئی، قوۂ ادراکیہ اور تمیز تجھ میں پیدا ہوئی، یہ سب کچھ خطاباتِ تکوینیہ کی مختلف اقسام تھیں، پھر تو سن بلوغ تک کو پہنچا ،اور پھر خطاباتِ تکلیفیہ تیری طرف متوجّہ ہوئیں، مثلاً عقائدِ حقّہ کی ذمہ داری، نیز صفات ِ حسنہ کی ذمہ داری، واجبات ِ بدنیہ و مالیہ اور ان کے مستحبات کی ادئیگی، صفات ِ خبیثہ ، افعال و اقوال محرمہ نیز اموال ِ غیر محلّلہ کا ترک کرنا ، اور تقلید و اجتہاد کی حد تک احکام کی تعلیم کی ذمہ داری، اور ان پر عمل پیرا ہونا، ان سب کے بعد خطاباتِ ارشادیہ کا سلسلہ تیری طرف آئے گا،کہ جیسے اطاعت، نیکی انجام دینے کی دوڑ، وسیلۂ نجات کی خواہش، اللہ کی جانب راستہ تلاش کرنا، داعی اللہ کو لبیک کہنا، اللہ کی طرف سفر کے لئے زاد و توشہ اکٹھا کرنا اللہ کو قرض دینا، اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرنا، اور اس کی راہ میں جہاد کرنانیز مغفرتِ الٰہی کی طرف جلدی کرنا،وغیرہ وغیرہ، کہ یہ تمام خطاباتِ اصلیہ کے تأکیدیں ہیں، لہٰذا،ان سب کے بعد اوران کے وقت کے گزرنے کے ساتھ، خطاباتِ تکوینیہ تیری جانب رُخ کریں گی کہ جن سے فرار ممکن نہیںہے۔
انہیں میں سے وہ خطاب ہے کہ جو تیری ’روح‘کی جانب ہوگا، یعنی ’بدن‘ سے جدا ہوجا، اور ’بدن‘ کو خطاب ہوگا کہ کا م کرنا چھوڑدے، اور اس کے تمام قُویٰ ساقط ہوجائیں گے، پس تیری آنکھیں تاریک ہوجائیں گی، تیرے کان بہرے ہوجائیں گے، تیری زبان گُنگ ہوجائے گی، جو تیرے ہاتھ میں ہوگا وہ تو گرا دے گا۔۔۔یہ سب اللہ کے ایک خطاب کا نتیجہ ہوگا،اور تو اس سے انکار پر قادر نہ ہوگا، پھر اس کے بعد کچھ مزید خطاباتِ تکلیفیہ تیری جانب متوجّہ ہوں گے، جن کی نسبت تیری حالت امتثال و معصیت کے حالات مختلف ہوں گے۔۔۔پس اوّل خطاب :ہوگاکہ اب ’روح‘ اور ’بدن‘ میں مِلاپ ہوجائے اور اپنی قبر سے اُٹھ کر’حشر و نشر‘کی جانب جائو، پھر کہا جائے گا : اپنا نامۂ اعمال پڑھو، پس اسے سیدھے ہاتھ یا اُلٹے ہاتھ یا پُشت سے لوگے، پھر اُسے پڑھ کر کہوگے : دیکھو دیکھو !یہ میرا نامۂ عمل ہے کہ جو نیکیوں سے مملوّ ہے ، یا کہوگے: کاش!یہ میرے ہاتھوں میں دیا ہی نہ گیا ہوتا، اور میں پنا حساب نہ جانتا۔
بعض کو کہا جائے گا: اے میرے مطیع بندوں!تم پر کوئی خوف اور حزن نہیں،
کچھ کو کہا جائے گا :اے گناہگار بندوں،نیک بندوں سے الگ ہوجائو۔
پھر کچھ خطابات محشر کے فرشتوں کی طرف ہوں گے: انہیں پکڑلو ان سے سوال ہونا ہے، اور پھر خطاب ہوگا : مؤمنین کو بہشت کی خوشخبری دے دو، اور کسی کو کہا جائے گا: اس گناہگار کو پکڑو اور زنجیروں میں باندھ دو۔ وائے ہو اس کے حال پر کہ جس کے اہل و عیال اس کی مدد کو نہ پہنچیں، پھر کچھ کو کہا جائے گا: اِس گناہگار کو پکڑ کر جہنّم میں ڈال دو!
پھر کچھ کو کہا جائے گا: اسے ایسی زنجیر سے باندھوکہ جو ستّر (۷۰) ذراع لمبی ہو(۱)،مجھے نہیں معلوم کہ اس جملہ کا کیا مطلب ہے، شاید اس کا معنی یہ ہوں کہ اسے زنجیر کے حلقے میں باند ھ دو، نہ کہ عام طریقہ کا باندھنا ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ۔
پھر کسی کو یہ کہا جائے گا:اس مؤمن کو مبارکباد دو:[ ’’سلامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوہا خٰالِدِیْنَ۔ ترجمہ: درود ہو تم پر ، پاکیزہ ہو گئے ، پس ہمیشہ کے لئے بہشت میں
دا خل ہوجائو(۲)]۔
پھر کچھ کو کہا جائے گا: اس کافر کو پکڑ کر جہنّم کے بیچوں بیچ کھینچواور پھر اس کے سر پر عذابِ حمیم انڈیل دو۔
اور ان میں پھر کچھ ’ تعجیزیہ خطابات ‘ ہیں تیرے اور دوسروں کے لئے ،یعنی
--حاشیہ--
(۱) سورۃ الحاقۃ آیۃ ۳۰-۳۲۔ (۲) سورۃ الزمر آیۃ ۷۳۔
کہ جس سے تیرے عجز و ضعف کا اظہار ہوتا ہے، جیسے: [’’یا معشر الجنّ والانس۔ یعنی اے گروہ جن و انس! اگر تم زمین و آسمان کی سرحدوں سے نکل پائو ،تو نکل جائو(۱)]۔
انہیں میں سے کچھ ’خطابات تھکمیہ‘ ہیں یعنی ڈانٹنے کے انداز میں ،جیسے:کہا
[’’اِصْلَوہا فَاصْبِرُوا اَوْ لَا تَصْبِرُوا۔ ترجمہ:کھینچو چاہے صبر کریں یا بے صبری کریں۔ (۲)] نیز [’’ذُقْ انّکَ اَنْتَ الْعیَزِیزالْکریم۔ ترجمہ: عذاب کا مزہ چکھ، کہ تو تو بڑا معزّز تھا‘‘](۳)۔ پس یہ خطابات تکلیفیہ اور ارشادیہ کی فروع ہیں،لہٰذا اپنے آپ کو دیکھو کہ تم مطیعین میں ہو یانہیں ، اگر نہیں ہو تو پھر تیّار رہو کہ ان جاں گداز خطابات کے مخاطب نہ بنو۔
مقدّمہ ٔدوّم : انسان گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے
جان لو کہ اب تم بہت سے گناہوں میں گرفتار ہو، یہ چند جہات سے ہے:
اوّل: ہر وقت آرزئو وں میں رہتے ہو ، جبکہ تمہارے ساتھ آفات ، بلیات ، امراض ، صدمات ہیں کہ جو تمہیں ’ موت‘ کی جانب لے جا رہے ہیں ، اور ایسی کشتی میں سوار ہو کہ جو بھنور میں آچکی ہے ، معلوم نہیں کہ کب غرق ہوجائے، اخلاط اربعہ کہ جو تیرے بدن میں ہیں انہوں نے تجھے گرفتار کیا ہوا ہے اور ایک دن وہ تجھے ہلاک کردیں گے۔
--حاشیہ--
(۱) سورۃ الرحمان آیۃ ۳۳۔ (۲) سورۃ الطور آیۃ ۱۶۔
(۳) سورۃ الدخان آیۃ ۴۹۔
دوّم : ایسی مصیبت کہ قطعاً جس کی کوئی فکر نہیں اور یہ وہ مصیبت ہے کہ جسے یاد کرکے امیر المؤمنین ؑ ہمیشہ گریہ کرتے تھے، سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح تڑپتے، مردہ بچہ کی ماں جیسے روتے تھے، اور وہ یہ ہے کہ سفر طویل درپیش ہے ، جس کی منزلیں ڈرائونی اور وحشتناک ہیں، منزل عظیم ہے یا ہمیشہ کی بہشت یاجہنّم (۱)، زادِ راہ کم ، پابرہنہ، پیدل، ہاتھ خالی اور راستہ پُر خطر!
سوم:تیری بلا بڑی ہے اور تیرا حال خراب ہے ، تو آگ کا شکار ہے مگر بے خبر ہے، اور اب تیرے دل ، دماغ ، بدن ، زبان ، شکم، اور پائوں گناہوں کی آگ میں جل رہے ہیں،تو گناہوں کے معرکہ میں قتل ہوا ، نفسِ امّارہ اور شیطان کا قیدی ہے، تیرے تمام اعضاء آگ میں جھلس رہے ہیں کہ وہ پشت ہو یا شکم یا دل یا کوئی اور انسانی اعضاء سب کے سب پارہ پارہ ہیں، لاکھوں گناہوں کے زخم ہیں، ضلالت و گمراہی کے گھوڑے تیری ہدایت کے جسم کو پامال کر چکے ہیں۔
چہارم: بلائے عظمیٰ اور مصیبت ِکبریٰ تو یہ ہے کہ اگر اس دنیا میں رہ جائو تو بڑھاپا نہیں چھوڑے گا ، تیرے قُویٰ ،پس اگر فقیر ہو تو یہ بڑھاپا اور ناداری عظیم مصیبت ہے، اور اگر غنی ہو تو بھی زندگی میں مزہ نہیں ہے، اہل و عیال تجھ سے برأت چاہیںگے اور تیری موت کی آرزو کریں گے، پس جب دنیا سے جائوگے تو اس قبر میں جائوگے کہ جس میں لیٹنے کی آمادگی
نہیں تھی، نہ فرش تھا نہ اعمالِ صالح کے چراغ، پس اگر وہاںرکوگے تو بوسیدہ بدن کے ساتھ
--حاشیہ--
(۱) نہج البلاغۃ، فیض الاسلام ۶/۱۱۸ شمارہ ۷۳۔
کیا کروگے، خاک میں مِلے ہوئے اعضاء، چیونٹیوں، سانپ، کیڑوں اور بچھؤوںکے ساتھ
مترجم کہتا ہے کہ: فشارِ قبر، منکر نکیر کے سوال و جواب اور برزخ کے عذاب کا کیا کروگے ،اگرقبر سے باہر آئو تو اس محشر کاکیا کروگے جس کی زمین و آسمان آگ ہے، سورج کے قریب، اطراف میں گناہوں کی آگ، اگر ٹہرو تو کیسے اور اگر جائو تو کہاں، پس اگر دل و دماغ سے غفلت کی آنکھیں کھولو اور غور کرو کہ کن مصائب میں گرفتار ہو تویقیناً لباس نہ پہنو اور خاک نشین ہو جائو اور اہل و عیال اورمنصب و مال سب سے ہاتھ اٹھا لو۔
حضرت امیر المؤمنین ؑ فرماتے ہیں: اگر وہ کچھ جان لو کہ جو میں جانتا ہوں اور تم سے وہ مخفی ہے - یعنی تمارا انجام- تویقیناً تم بیابان میں بھاگ جائو اور اپنے حال پر گریہ کرو، اپنا مال و اسباب بے نگہبان چھوڑ کر اپنے حال میں مشغول ہو جائو(۱)۔
ان خطابات پر عمل کرنا کہ جو امام ؑ سے مخصوص تھے
اس مقدّمہ کو جاننے کے بعد ہم کہتے ہیں :جناب امام حسین ؑ ،خامسِ آل عبا ؑنے اُن احکام کو عملی جامہ پہنایا کہ جو بارگاہِ ایزدی سے جبر ئیل ِ امین ؑ کے توسّط سے مُہر بند آئے تھے،
او ر انہوں نے وہ رسول اکرم ؐکے حوالے کئے، پھر نبی ٔاسلام ؐ نے انہیں حضرت علی ؑ کے سپرد کیا، اور انہوں نے وہ امام حسن ؑ کودیئے ،انہوں نے امام حسین ؑ کے حوالے کئے ،اور ان سے مخصوص احکام پر انہوں نے عمل کیا(۲)، نیز ان پر عمل سے امام ؑ کے ’متوسّلین‘ کو بھی تمام
--حاشیہ--
(۱)نہج البلاغۃ، خطبہ ۱۱۵، (۲) بحار۳۶/ ۱۹۲، امالی صدوق ؒ مجلس۶۳ص۳۲۸۔
خطابات ارشادیہ و تکلیفیہ کے عمل کاأجر مل گیا۔
امام ؑ نے وہ مصیبتیں جھیلیں کہ جن کے سبب انہیں ایسا أجر عطا ہوا کہ جس کے سبب امام ؑ کے متمسّکین کی جملہ مصیبتیں اُٹھ گئیں ، کہ جن میں ’عقبات‘ سے نجات بھی شامل ہے، اپنے خاص خطاب پر عمل کرنے کے سبب امام ؑ کے متوسّلین سے’ خطابات تعجیزیہ اور تھکمیہ‘ بھی رفع ہو گئے،پس ان کے وسائل کے سبب : امر بہ طاعات ، نماز، روزہ ، صدقہ، حج ، عمرہ، جہاد ، زیارت یعنی ان سب کا ثواب اسے دیں گے، بلکہ ایسے اعلیٰ طریقہ کا کہ جو تجھ سے واقع ہونا ہی ممکن نہیں، بلکہ کبھی کبھی تو ایسا ارفع ثواب کہ جس کا واقع ہونا متصوّر ہی نہیں ، مثلاًرسولِ خداؐ کے رکاب میں حج و جہادکرنا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کمیت میں ایسا أجر جس کا حاصل کرنا ممکن نہ ہو ،مثلاًتیرا سو (۱۰۰) حج بجا لانا، اسی طرح امام ؑ کے وسائل میں ایسی چیز بھی ہے جس کے سبب تیرے لئے ایک لاکھ حج کا ثواب لکھا جائے(۱)، بلکہ ایک زیارت میں ہر قدم پر ایک لاکھ حج لکھے جائیں گے(۲)،اور اس سے بالاتر یہ کہ تجھے وہ مقام مِلے کہ جس کا واقع ہونا فی نفسہ ممکن نہیں مثلا ً : راہ ِ الٰہی میں قتل ہوکرخون میں بھر جاناایک ہی مرتبہ ممکن ہے مگر یہاں أمور ایسے ہیں کہ جہاں ہزار مرتبہ راہِ خدا میں جان دینے کا ثواب دیتے ہیں (۳)پس
ان أمور کے سبب تما م مصیبتیں رفع ہو جائیں گی۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۴۳ ، کامل الزیارات باب ۶۶ص۱۶۴۔
(۲) بحار۹۸/۸۷، کامل الزیارات باب۷۰، ص۱۷۲، یہ بات مخفی نہ ر ہے کہ ایک لاکھ کا عدد نہیں ملا مگر ’ہزار ، ہزار ‘ کا ہے۔ (۳) بحار۹۸/۸۹، کامل الزیارات باب۷۰ص۱۷۲۔
تجھ سے وہ بلیات دور ہوں گی کہ جن کے منتظر ہو، ’ عقبا ت‘ میں آسانی ہوجائے گی ، راستے کے ڈر اور خوف سے محفوظ رہوگے ، اور تمام خطابات ِ تکلیفیہ و ارشادیہ پر عمل کا أجر ملے گانیز صفاتِ محمودہ کے آثار بھی عطا ہوں گے، اور آثار مُھلکہ تجھ سے دور کردیئے جائیں گے، تیرے گناہ بخش دیئے جائیں گے، بہشت کے دروازے کہ جو تجھ پر بند تھے وہ کُھل جائیں گے، جہنّم کے جو تم نے دروازے کھولے تھے وہ بند ہوجائیں گے، جس آگ نے تیرا محاصرہ کیا تھا وہ بجھ جائے گی، تجھے وہ درجات اورمراتب ملیں گے کہ جن کا تجھے تصور بھی نہیں وہ نصیب ہوں گے۔
اچھا ہے کہ اس موضوع پر مزید گفتگو کی جائے:
پس اپنے کان کو کھولواور دل کو بیدار کرونیز ان متعددخطابات کہ اب جو تیری طرف آرہے ہیں ان پرعمل کی کوشش کرو، خوابِ غفلت سے جاگو کہ چند ہی دنوں میں قیامتِ صغریٰ سے دوچارہورہے ہوکہ جس میں تیری جانب جدید خطابات نے رُخ کیا ہے، کہ جو بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے، جس کا انجام سے ڈروکہ عنقریب قیامتِ کبریٰ یعنی محشر آنے والی ہے۔
تجھے سخت خطابات درپیش ہیں، کہ جو نہایت ہولناک ،خوفناک اور عظیم ہیں،ان تمام خطابات کو ’وسائلِ حسینی ؑ ‘کے سبب عملی جامہ پہنایا جائے تو أمور سہل اور آسان ہوجائیں گے، ان کا بیان تین کیفیتوں کی وضاحت پر مبنی ہے:
اللہ کی طرف سے انسان کو خطابات
کیفیتِ اوّل: تفصیلی خطابات چند أمور پر مشتمل ہے:
خطاب اوّل:عبادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معبود کے لئے کہا:’’یا ایّہا الناس اعبدوا ربّکم الذی خلقکم۔ ترجمہ:اے لوگو!اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے(۱)۔ اس خطاب کا مضمون ایک لاکھ چوبیس ہزار (۱۲۴۰۰) انبیاء ؑ، ان کے اوصیاء ، اور تمام صلحاء ، ملائکہ ، حکماء، عرفاء اور تمام أدیان کے ماننے والوں کے زبانوں پر جاری ہے، پس اپنے آپ پرغور کرو کہ کیا تم نے ایسی عبادت کی کہ جو واقع کے مطابق ہو، جیسے پچھلی امتوں کے مذہبی افراد انجام دیاکرتے تھے؟ پھر اپنی عبادت کے دورانیہ پر غور کرو کہ کیا تمام عمر میں یا ایک سال یا ایک ماہ یا ایک روز یاایک گھنٹہ میں صحیح عبادت انجام دی ہے، کہ تم کس قسم کے عبادت کرنے والے ہو؟
یقیناً نہ عباد مکرّمین میں ہو، نہ ہی عباد مصطفیِن ، نہ مخلِصیں میں ، اور نہ ہی وہ عباد کہ جن پر شیطان مسلّط نہیں ہو سکتا، نہ عباد مؤمنین ، اور نہ ہی متّقین میں، کیونکہ وہ صفات تجھ میں نہیں ، نہ ہیمُسر فین و منیبین میں کہ جویوں خطاب ہوئے :’’لاتقنطوا من رحمۃ اللّٰہ۔ ترجمہ:ہرگز بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو(۲)،پھر ملاحظہ کرو کہ جو عبادت کرتے ہو وہ ایسی نہیں ہے کہ جو اخلاص سے ہوتی ہو ،جیسے آزاد لوگوں کی عبادت اور ویسی کہ جو آگ کے ڈر سے غلاموں کی عبادت ہو ، نہ ہی شوقِ بہشت میں تاجروں والی عبادت، بلکہ کاش ہم عبادت نہ کرنے پر ہی اکتفاء کرتے بلکہ دشمنِ خدا کی عبادت نہ کرتے اور کاش ایک ہی دشمن
کی عبادت کرتے نہ کہ شیطان، خواہشِ نفسانی ، دنیا، دولت وغیرہ کی عبادت شامل کرتے،
--حاشیہ--
(۱) سورۃ الزمر آیۃ ۵۳۔
کہ وہ تمام عبادات کہ جن کا تصور بھی مشکل ہے، ان دشمنوں کے بارے میں جب اپنا حال دیکھ لیااور اپنا قصور اور غلطی کا اندازہ ہوگیا تو جان لو کہ ممکن ہے کہ تجھے امام حسین ؑ سے توسّل کے سبب تمام عابدین میں شامل کرلیں، کہ جو عبادت کی تمام اقسام بجا لائے، پوری عمر عبادت کرتے رہے، ممکن ہے کہ عبودیت کے تمام مراتب پر فائز ہو، پس اس نعمت کی قدر جان لو، یہ بیان کرنے کے لئے چند مطلب ہیں:
امام حسین ؑ کی زیارت عباد مکرمین۔۔۔کا مرتبہ عطا کرتی ہے
پہلا مطلب: جب بھی امام حسین ؑ کی زیارت کرتے ہو تو تمہارے لئے’ عباد مکرمین ‘ یعنی ملائکہ کے مراتب حاصل ہوتے ہیں،کہ روایات کے مطابق زائر کے لئے لکھا جاتا ہے فرشتوں کی نماز، تسبیح و تقدیس اور عبادات روزِ قیامت تک(۱) بلکہ ملائکہ اس کے نائب ہوں گے زیارت میں تا روزِقیامت (۲)، اور یہاں سے چند روایات کے معنی ٰپتہ چلتے ہیں کہ جو بھی زیارت کرے امام حسین ؑ کی وہ ’عباد مکرمین‘ میں شامل ہوگا(۳)۔
دوسرا مطلب:جب امام ؑ کی زیارت کروگے تو تمہیں ’عباد مصطفین ‘کہ جو انبیاء ؑ ہیں ، ان کے مراتب حاصل ہوں گے، کیونکہ جمیع ثواب ِ زوّار یہ ہے کہ وہ انبیاء ا ور اوصیاء
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۵۵ ، کامل الزیارات باب۴۳ص۱۲۱۔
(۲) بحار۹۸/۵۴ ، کامل الزیارات باب۴۱ص۱۱۹۔
(۳) بحار۹۸/۱۸، کامل الزیارات باب۵۶ص۱۴۳۔
کے ہمنشین ہوں گے، ایک ہی دسترخوان پر کھائیں گے، ان سے مصافحہ اور گفتگوکرکے دعاء دعاء دیں گے نیز ان پر سلام بھیجیں گے، جیسا کہ روایت میں ہے(۱)۔
تیسرا مطلب:امام حسین ؑ کے وسائل سے وہ مراتب حاصل ہوتے ہیں کہ جو عباد صالحین کے، مخلصین، مؤمنین ، متّقین ، زاہدین، خائفین، بلکہ تمام عابدین کے، اور تمام مقبولہ عبادتوں کا ثواب، نماز ، روزہ، حج ، جہاد ، مرابطہ ، وقف، صدقہ کے آداب ، مستحبّات ، اعلیٰ درجہ کی نیّت ، تمام عمر کی عبادت بلکہ تما م دہر کی ، جیسا کہ روایات میں ہے(۲)۔
چوتھا مطلب :امام ؑ کے وسائل سے وہ صلاحیت حاصل ہوجاتی ہے کہ جو اس نداء میں شامل ہوجائے:’’لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ انّ اللّٰہَ یغفر الذنوب جمیعاً۔ ترجمہ:اللہ کی رحمت سے مأیوس نہ ہوکہ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا(۳)۔
کیونکہ گریہ اور آپ ؑ کی زیارت کے سبب سے تمام گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے،نہ فقط گزشتہ گناہ بلکہ آئندہ کے بھی، اور نہ ہی فقط تمہارے بلکہ والدین اور دوستوں کے بھی گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، جیسا کہ آئندہ روایات میں آئے گا(ان شاء اللّٰہ تعالیٰ)(۴)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۶۶، کامل الزیارات باب۵۲ص۱۳۷۔
(۲) بحار۹۸/۳ ، کامل الزیارات باب۴۳ص۱۲۳۔
(۳) سورۃ الزمر آیہ ۵۳۔
(۴) بحار۹۸/۲۶ ، ۲۷۔ کامل الزیارات باب۶۲ص۱۵۲، ۱۵۴ و باب ۶۸ ص۱۶۶۔
خطاب دوّم:’’یاایّہاالناس اتقوا ربّکم ۔ترجمہ:اے لوگو!اپنے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو‘‘(۱)۔
یہ خطاب بھی پچھلے خطاب کی طرح تمام انبیاء ؑکے کلام اور کتب آسمانی کا خلاصہ ہے۔اور اس کی چند اقسام ہیں: تقویٰ عوام، تقویٰ خواص، اورتقوائے خاص الخاص، ٭ [ان تمام اقسام کا نچوڑ’ وسائلِ حسینی ؑ ‘ سے حاصل ہوتا ہے۔
بالا ترین تقویٰ یہ ہے کہ اللہ روزِ قیامت نداء دے گا: ’’یا عباد لا خوف علیکم الیوم ولا انتم تحزنون۔ ترجمہ:اے میرے بندو! آج تمہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی تم غمگین ہوگے‘‘(۲)۔
وہ زائرین کہ جو امام حسین ؑ کی زیارت معرفت کے ساتھ انجام دیتے ہیں، روزِ قیامت اسی خطاب سے پُکارے جائیں گے، چنانچہ بعد میں اس کی تفصیل بیان ہوگی۔
خطاب سوّم:’’وانفقوا فی سبیل اللّٰہ۔ترجمہ:راہِ الٰہی میں انفاق کرو‘‘(۳)٭] (۴)،
حسینیؑ وسائل کے ذریعہ سے تمام اقسام کے ثمرات حاصل ہوجائیں گے،
مثلاً: اعطاء ،اطعام ،پانی پلانا، زکوٰۃ و صدقات دینا، ہر قسم کی نیکی واحسان کرنا، بلکہ اس
--حاشیہ--
(۱) سورۃ النساء آیۃ ۱۔ (۲) سورۃ الزخرف آیۃ ۶۸ ۔
(۳) سورۃ البقرۃآیۃ۱۹۵۔
(۴) جو عبارت ستاروں کے درمیان ہے ،شایدوہ مترجم سے چھوٹ گئی تھی۔
سے وہ چیز بھی حاصل ہوتی ہے کہ جس کا حصول غیر سے ممکن نہیں ، جیسے مروی ہے کہ عاشور کی شب اگر کوئی امام ؑ کی قبرِ مطہّر کے پاس پیاسوںکو پانی پلائے تو ایسا ہے کہ گویا اس نے امام ؑ کے تمام لشکر کو سیراب کیا ہو(۱)، بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی دور ہی سے امام ؑ کے حالا ت کو تصور کرکے دل میں غم محسوس کرے توگویا اس کا دل بمنزلۂ مشہد امام ؑ ہے ، پس آنسو گریں تو ایسا ہی ہے کہ اس نے امام ؑ کو، ان کے اہل و عیال ؓ، اطفال و اصحاب ؓ سب کو سیراب کیا ہو۔
خطاب چہارم:’’وجاہدوا فی اللّٰہ حقَّ جہادہ۔ ترجمہ: اور جہاد کرنے کا جو حق ہے ویسا جہاد کرو(۲)۔
جہاد کی دو قسمیں ہیں: اکبر و اصغر ، جہادِ اکبر میں نفسِ امّارہ سے جہاد ہے، قاتل و مقتول دونوں ہی سعید ہیں مگر جہاد اصغر میںکفار کے مقابلہ میں شہید ہے، تو جہاد ِ اکبر میں قاصر ، جہادِ اصغر میں داخل ہو، لیکن دونوں کو وسائلِ حسینیہ ؑ سے حاصل کرسکتے ہو، اور اس کا بیان چند مطالب پر مبنی ہے:
امام ؑ کے رکاب میں شہادت کی آرزو کرنا
پہلا مطلب : جب بھی امام ؑ کے رکاب میں شہادت کی آرزو کر و اور کہو:’’یا لیتنی کنتُ معکم شہداء کا ثواب تجھے ملے گا(۳)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۱۰۵ ، کامل الزیارات باب ۷۱ص۱۷۴۔
(۲) سورۃ الحج آیۃ ۷۸۔
(۳) بحار۴۴/۲۸۶ ، امالی صدوقؒ مجلس ۲۷ ص ۱۱۳۔
دوسرا مطلب:جب بھی چاہو کہ شہداء کے عمل میں شریک ہو تو جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کے قول میں ملتا ہے: قسم خدا کی کہ ہم آپ کے ساتھ عمل میں شریک ہیں(۱)۔
تیسرا مطلب : جب بھی شبِ عاشور امام ؑ کی زیارت کرو اوروہاں صبح تک بیدار رہو ، تو اللہ تعالیٰ سے ایسے ملاقات کروگے کہ اپنے ہی خون میں شہدائے کربلا کی مانند غلطاں ہوں(۲)۔
چوتھا مطلب : یہ وسائل جہاد سے بھی اعلیٰ مراتب رکھتے ہیں، کیونکہ جہاد میں کبھی شہادت نصیب ہو تی ہے اور کبھی نہیں لیکن ان وسائل میں جہاد و شہادت اور خون میں غلطاں ہونا سب واقع ہو جاتا ہے۔
پانچواں مطلب: ان سب سے بڑھ کر راہِ خدا میں اپنے خون میں غلطاں ہونا اگر کسی کے لئے واقع ہو تو ایک مرتبہ سے زیادہ ممکن نہیں ، مگر ان وسائل میں کئی گناخون میں غلطاںہونا محقّق ہوجاتا ہے۔
خطاب پنجم : ’’تزوّدوا فانّ خیر الزاد التقویٰ۔ترجمہ: توشہ کی تیّاری کرو کہ بہترین توشہ تقویٰ ہے(۳)۔
بہترین توشہ یہ ہے کہ نیک بنو اورمسافر کو منزل تک پہنچائو ، امام ؑ کی زیارت اس سفر
--حاشیہ--
(۱) بشارۃ المصطفیٰ ؐ،ص ۷۴۔ (۳) سورۃ البقرۃ آیۃ ۱۹۷۔
(۲) بحار۹۸/۱۰۳ ، مصباح طوسی ؒ ص ۵۳۸،(کامل الزیارات باب ۱۱ص۱۷۳)۔
کے لئے بہترین توشہ ہے ،کہ جو اس منزل میں کام آئے گا، بلکہ تمہارے دوستوں کے لئے بھی مفید ہے، جیسا کہ زائر کے لئے کہتے ہیں : جس کا ہاتھ چاہے تھام لو اور بہشت میں داخل کردو(۱)۔
خطاب ششم:ــــ’’و اَقرَضوا اللّٰہَ قرضاً حسناً۔ ترجمہ: جو اللہ کو قرض حسنہ دیتے ہیں(۲)۔وسائلِ حسینی ؑ زیارت ، گریہ وغیرہ قرض حسنہ ہیں، اللہ ، رسول ؐ، علی ؑ، فاطمہ ؑ، حسن ؑ اور حسین ؑ کے لئے، اللہ نے ہر ایک کے عوض اس قدر کرامت و مراتب رکھے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ۔
خطاب ہفتم : ’’ استجیبوا للّٰہ و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم۔ ترجمہ: جب تم کو ہمارا رسول ؐ ایسے کام کے لئے آواز دے کہ جو تمہاری روحانی زندگی کا باعث ہو تو تم لبّیک کرو(۳)۔یقینا جناب رسول اللہ ؐ نے ہمیں وسائلِ حسینی کے ان أمور میں بلایا ہے کہ جو’حیاتِ حقیقت‘ کے اسباب ہیںجیسے امام ؑ کی محبت ، نصرت، گریہ، زیارت وغیرہ ۔
خطاب ہشتم:’’و قدّموا لانفسکم، ترجمہ: اوراپنی آئندہ کی بھلائی کے واسطے (اعمالِ صالحہ )پیشگی بھیجو(۴)۔اور یہ وسائل شریفہ نفس کے لئے تقدیم بھی ہیں تأخیر بھی، یعنی اس کے ثمرات ہمیشہ تجدد کی حالت میں ہیں اور موت سے منقطع نہیں ہوتے ۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۲۷ ، کامل الزیارات باب۶۶ص۱۶۶،۱۶۷۔
(۲) سورۃ الحدید آیۃ۱۸۔
(۳) سورۃ الانفال آیۃ۲۴۔ (۴) سورۃ البقرۃ آیۃ۲۲۳۔
خطاب نہم: ’’و سارعوا الیٰ مغفرۃ من رّبّکم، ترجمہ: اور اپنے ربّ کے(سبب) بخشش اور جنّت کی طرف دوڑ پڑو(۱)۔ اور امام ؑ پر گریہ کرنا مغفرت کا سبب ہے،
بلکہ آنکھوں میں آنسوئوں کا بھر آنا، اور امام ؑ کی زیارت وغیرہ سب انسان کی نیت اور ارادہ کا سبب ہے ، پس تمام مسارعت اسی میں ہے۔
خطاب دہم:دعا کا حکم ہے:’’ادعوا ربّکم تضرّعاً و خفیۃً۔ ترجمہ:اپنے رب کو تضرع سے اور چھُپ کے پُکارو(۲)۔
نیز دیگر آیات اور وسائلِ حسینی ؑ کے سبب انسان ان مراتب کو پالیتا ہے دعا ء کے تمام ثمرات ہیں، بلکہ وہ رسول اللہؐ ،جناب فاطمہ ؑ ، علی ؑ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ اور تمام ائمّہ طاہرین ؑ(۳) ، فرشتوںکی دعائوں (۴)کااثر پاتا ہے، بلکہ ایک روایت میں ہے کہ زائر جیسے ہی کسی چیز پر قدم رکھتا ہے تو وہ چیز اُسے دعا ء دیتی ہے(۵)،بلکہ خود امام ؑ اپنے آباء سے خواہش کرتے ہیں کہ وہ رونے والوں اور زائرین کے لئے دعا فرمائیں (۶)، اسی طرح امام صادق ؑ سجدہ میں اُن چہروں کے لئے دعافرماتے کہ جو امام حسین ؑ کی قبر مطہر پر مَلے ہوئے ہوں، اُن اشکوں پر کہ جو آپ ؑ کے لئے نکلے ہوں اور وہ چیخیں کہ جو آپ ؑ کے لئے بلند ہوئی
--حاشیہ--
(۱) سورۃ آل عمران آیۃ۱۳۳،(۲) سورۃالاعراف آیۃ۵۵،(۳) بحار۹۸/۵۳ ، کامل الزیاراتباب ۴۰ ص ۱۱۶ (۴) بحار۹۸/۵۴ ، کامل الزیاراتباب۴۱ص۱۱۹۔
(۵) بحار۹۸/۱۵ ، کامل الزیاراتباب۹۸ص۲۹۷۔
(۶) بحار۹۸/۶۴ ،امالی طوسی ؒ۱/ ۵۴۔
ہوں (۱)۔
خطاب یازدہم: ’’کُونُوا اَنصارَاللّٰہ ۔ترجمہ:اللہ کے مددگار بنو(۲)۔
چاہے اللہ کا ولی غریب اور مظلوم ہی ہو پھر بھی اس کی نصرت مطلوب ہے،امام صادق ؑاپنے جد بزرگوار ؑکے بارے میں فرماتے ہیں:’’باٗبی المستضعف الغریب بلا ناصر۔ترجمہ:میرا باپ فدا ء ہواس مستضعف پرجو تنہا اور بے یار و مددگارتھا (۳)۔
پس آئیں اور اس ولی ٔ خدا کی نصرت کریںکہ جو غریب اور مظلوم تھے،گریہ کرنے سے اور عزاداری برپاکرنے سے، مدد کرنے کی آرزو کرنے سے، بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ امام ؑ کی قبر پر سجدہ کرنے اور امام ؑ کی قبر کی خاک سے تسبیح بنانابھی امام ؑکی نصرت کے زمرہ میںآتا ہے،چونکہ وہ فضیلت جو اس سجدہ اور تسبیح میں ہے وہ امام ؑ کی شہادت کے اعواض میں سے ہیں کہ جو اللہ نے آپ ؑ کو عطا ہوئیں، اس کی تفصیل آئے گی (ان شاء اللّٰہ)۔
خطاب دوازدہم: ’’اَجِیبُوا دَاعِی اللّٰہِ۔ ترجمہ: [اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مانو(۴)]۔اللہ کی طرف بلانے والے رسول اکرم ؐ ہیںکہ جنہوں نے اسلام کی طرف
دعوت دی اور ان کے بعد امام حسین ؑ نے ایمان کی جانب علناً بُلایااور خلافتِ غصبی کے عقیدہ کا بطلان ظاہر کیا، اور امام ؑ کے جملہ وسائل امام ؑ کی دعوت پر لبّیک کہنا ہے، حتّٰی کہ تربتِ پاک
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۵۲ ، کامل الزیاراتباب۴۰ص۱۱۶۔
(۲) سورۃ الصف آیۃ۱۴۔
(۳) بحار۴۵/۹۵، کافی۴ / ۱۴۷۔ (۴) سورۃ الاحقاف آیۃ ۳۱۔
سے استشفاء بھی آپ ؑ کی دعوت پر لبّیک کہنا ہے، پس غور کرو۔
[مترجم(شہرستانی) کہتا ہے:چونکہ ان پر اعتقاد ’ولایت‘ سے مربوط ہے کہ جو امام ؑ کی دعوت کا اصلی ہدف تھا، واللہ اعلم]۔
خطاب سیزدہم: ’’وابتغوا الیہ الوسیلۃ۔ ترجمہ:اللہ کی طرف وسیلہ جستجو کرو(۱)۔ امام حسین ؑ سب سے عظیم وسیلہ اور بہت آسان حاصل ہونے والا وسیلہ ہے۔
خطاب چہاردہم: ’’ فَمَن شاء اتّخَذ الیٰ ربّہ سبیلا ً۔ترجمہ:جو شخص چاہے اپنے ربّ کی راہ اختیار کرے(۲)۔
امام حسین ؑ۔۔۔ سبیل اعظم ، صراط أقوم، سیدھا راستہ، واضح، آسان اور نزدیک ترین راستہ ہیںاور یہ مذکورہ مطالب نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے، یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بقیہ خطابات و احکام، اور وسائلِ حسینیہ ؑکے ذریعہ ان کی کیفیت اور ان پر عملدرآمدمیں کچھ مبالغہ نہیں ہے۔
وسائلِ حسینیہ ؑ میں سے ایک ،امام ؑ پر گریہ ہے
کیفیت دوّم:اس بیان میں کہ کیونکر امام ؑ کے ذریعہ سے خطابات تکوینیہ ، کہ جو تیری
طرف ’قیامتِ صغری ٰ ‘ میں متوجّہ ہیں مثلاً حالتِ موت وبرزخ ، پس ہم کہتے ہیں کہ وسائلِ
--حاشیہ--
(۱) سورۃ الانسان آیۃ ۲۹، (سورۃ المزمل آیۃ ۱۹)۔ (۲) سورۃ المائدۃ آیۃ۳۵۔
حسینیہ ؑ میں سے ایک امام ؑ پر گریہ کرنا ہے کہ جب امام ؑ کے مصائب یاد آئیں ، تو اتنا گریہ طاری ہو کہ کھانا پینا انسان چھوڑ دے، اور اسی وسیلہ کے سبب رسول اللہ ؐ اور ائمّہ طاہرین ؑ اس شخص کے پاس وقتِ نزع آتے ہیں ، اسے خوشخبری دیتے ، تحیت و سلام پیش کرتے ہیں ، کہ وہ اس قدر خوش ہوتا ہے کہ تا روزِ قیامت یہ خوشی ا س کے ساتھ رہتی ہے، اسی سبب سے موت و برزخ وغیرہ کے تمام مراحل اس پر آسان ہوجاتے ہیں(۱)، ان کیفیتوں کا بیان آئے گا
(ان شاء اللّٰہ)۔
کیفیت سوّم: خطابات تھکمیہ و تعجیزیہ کے دورہونے کی کیفیت،نیز خطابات أخذ و جر و غل و زنجیر وغیرہ وسائلِ حسینیہ ؑ سے ، پھر ان کا خطاب لطف و رحمت سے بدل جانا۔ اس کا بیان یہ ہے کہ حضرت رسول اللہ ؐ ضامن بنے ہیں کہ روزِ قیامت زیارت کریں امام ؑ کے زائر کی اور اس کا ہاتھ تھام کر قیامت کی ہولناکیوں سے اُسے نجات دلائیں گے اور کہ اسے بہشت میں داخل کریں گے(۲)، اسی پر اکتفاء نہیں بلکہ ان کے لئے
اعمالِ مقبولہ وغیرہ لکھے جائیں گے اور جہنّم خاموش ہوجائے گی اور بہشت کا بڑا دروازہ کہ جسے ’’باب الحسین ؑ‘‘ کہتے ہیں کھول دیا جائے گا، بلکہ اُسے اجازت ہوگی کہ بہشت کے جس
دروازہ سے جانا چاہے جاسکتا ہے، اور جہنّم کے دروازے بند ہوجائیں گے،پس وسائلِ حسینیہ ؑ کی طرف آئو ، تمہیں مبارک ہو کہ جو کچھ بیان ہوا ، اس سے بڑھ کر ایک ایسی عظیم نعمت
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴/۲۸۹ ، ۲۹۰۔ کامل الزیاراتباب۳۲ص۱۰۰و ۱۰۱۔
(۲) بحار۴۴/۲۳۵ ، کامل الزیاراتباب۱۶ص۵۹۔
کی بشارت ہے کہ جو اِن تمام وسائل سے اعلیٰ اور تمام اعمالِ صالحہ پر فوقیت رکھتی ہے، چند جہات سے:
حسینی ؑ عزاداروں کا أجر۔۔۔
پہلی جہت:کہ اعمالِ صالحہ کے ثمرات کی انتہا خود عامل کا جہنّم سے آزادی ہے ، جبکہ ان وسائل کے بروئے کار لانے سے دوسروں کو بھی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
دوسری جہت: اعمالِ صالحہ کی انتہاخود عامل کا داخلِ بہشت ہونا ہے، جبکہ ان وسائل سے استفادہ کرنے سے دوسروں کو بھی داخلِ جنّت کیا جاسکتا۔
تیسری جہت: ان اعمالِ صالحہ سے خود عامل کو جامِ کوثر نصیب ہو سکتا ہے جبکہ ان وسائل سے دوسروں کو بھی سیراب کیا جاسکتا ہے۔
چوتھی جہت: ان اعمالِ صالحہ کی نہایت منزل یہ ہے کہ دیوانِ حسنات میںوہ درج ہوجائیں اور وہ کتاب سیدھے ہاتھ میں دی جائے ، جبکہ ان وسائل کے ذریعہ سے وہ نامۂ اعمال ’افضل مخلوقات ‘کا عمل یعنی اشرف انبیاء ؑ کا عمل شمار ہوگا۔
پانچویں جہت:نیک اعمال کا فائدہ یہ ہے کہ ، قیامت میں تیرے اور رسول اللہ ؐ کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو اور آںحضرت ؐ تیری شفاعت کریں، اور ان وسائل کے سبب سے قیامت میں آپ ؐ خود تمہیں تلاش کریں گے اور تمہارا بازوتھام کربہشت تک پہنچادیں گے۔
چھٹی جہت:اعمالِ صالحہ کی انتہا یہ ہے کہ ’حورالعین‘ کا وصال ہو جائے،جبکہ امام حسین ؑ پر گریہ کرنے والے ان کے ساتھ عرشِ الٰہی کے سایہ میں گفتگو کر رہے ہوںگے،پس ’حورالعین‘نے کسی کو بھیجا کہ ہم آپ کے مشتاق ہیں جلد آئیں، مگروہ گفتگو سے اس قدر محظوظ ہورہے تھے کہ اُنہیں منع کردیا۔
ساتویں جہت: ان اعمال کی انتہا یہ ہے کہ اس شخص کا مرتبہ دوسرے مؤمنین سے اعلیٰ ہو جائے گا، اور ان وسائل کے ذریعہ سے رسول اللہ ؐ اورحضرت علی ؑ کی ہمنشینی حاصل ہوگی۔
آٹھویں جہت: ان اعمالِ صالحہ کی انتہا ، رضوانِ الٰہی ہے کہ جوبہشت سے بہتر ہے،لیکن وسائلِ حسینیہ ؑ سے انسان ایک ایسے درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ جو ’فوقِ عرش ‘ہے، اللہ سے گفتگو میں بھی مشغول رہتا ہے، جیسا کہ روایت میں آیا ہے(۱)، یہ شدتِ لطف و قرب کی جانب اشارہ ہے۔
نویں جہت: ان اعمال ِ نیک کی نہایت یہ ہے کہ انسان کا تشییع جنازہ نیک افراد کریں ، صالح و متقی لوگ اسے غسل دیں، مالِ حلال سے کفن دیں اور ظاہر الصلاح عالم نماز پڑھائے ، جبکہ وسائل کے ذریعہ روح الامین، مقرّبین ملائکہ کے ساتھ تجھ پر نما ز ادا کریں گے، بہشتی کفن دیں گے اور بہشتی حنوط سے حنوط کریں گے(۲)۔
دسویں جہت:اعمال ِ صالحہ کی انتہا یہ ہے کہ موت کے بعد بھی ’باقیات الصالحات ‘ کا سلسلہ منقطع نہ ہو، مثلاً وہ اعمال کہ جوکوئی اور تیری نیابت میں انجام دے یا تیرے لئے کوئی
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۷۳ ، کامل الزیاراتباب۵۴ص۱۴۱۔
(۲) بحار۹۸/۷۹ ، کامل الزیاراتباب۶۸ص۱۶۶ ،اور باب ۴۴ ص ۱۲۳۔
تحفہ بھیجے یا کوئی علم سے استفادہ کرے، یا اولاد نیکی انجام دے وغیرہ صدقۂ جاریہ کی شکل میں
باقی ہو، تو ان کے آثار غالباً سو سال یا ہزار سال کے بعد منقطع ہو جاتے ہیں، لیکن وسائلِ حسینی ؑ کے سبب سے تیرے عمل کی نیابت پرایسے فرشتے مأمور ہوتے ہیں کہ جن کے عمل کے ثواب میں انقطاع نہیںہمیشہ تجھے ملتا رہے گا(۱)۔
گیارھویں جہت: ان اعمالِ صالحہ کی نہایت یہ ہے کہ وہ شخص’ عباد صالحین‘ کے زمرہ میں داخل ہوجائے، ان وسائل کے سبب وہ ملائکہ ٔ مقرّبین میں شامل ہوگا، بلکہ کرّوبین یعنی ملائکہ مقرّبین کے سرداروں میں داخل ہوگا، جیسا کہ معتبر روایات میں ہے اور اس کی تفصیل آئندہ آئے گی(ان شاء اللّٰہ)(۲)۔
بارھویں جہت:ہر نیک عمل کی جزاء متصور اور محدود مقدار ہوتی ہے، اور ان وسائل کا أجر تصور کی حدود سے باہر ہے، پس اس درجہ میں کہ جس درجہ کو سب سے اعلیٰ کہا جائے کہ اس سے برتر کوئی درجہ نہ ہو۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸/۵۵ ، کامل الزیاراتباب۴۲ص۱۲۱۔
(۲) بحار۹۸/۸۸ ، کامل الزیاراتباب۷۰ص۱۷۲ مصباح الطوسی ؒ ص۶۵۸ ۔