عنوان چہارم
آپ ؑ کی نسبت الطافِ الہیہ کی
خصوصیات اور ان کی گیارہ اقسام
عنوان چہارم: امام ؑ کی نسبت الطافِ الٰہیہ کے بارے میں ہے، اور اس کی کچھ قسمیں ہیں :
پہلی قسم: الطافِ الٰہیہ کی تعبیر کی
خصوصیات کے بارے میں
اُن الطافِ الٰہیہ کی خصوصیات کی تعبیر کے سلسلے میں، اور یہ چند عبارتیں ہیں:
پہلی یہ کہ : کامل الزیارات میں امام صاد ؑق سے معتبر روایت ہے کہ : ایک روز پیغمبرِ اسلام ؐ بی بی سیدہ ؑ کے گھر میں تشریف فرما تھے اور حسنین شریفین ؑ آپ ؐ کے دامنِ مبارک میں تھے کہ اچانک آپ ؑ نے رونا شروع کردیا اور سجدہ میں گر گئے، پھر فرمایا: اے فاطمہ! اللہ تعالیٰ نے ابھی اِس وقت بہترین طور پر تمہارے گھر میں تجلی فرمائی، اور فرمایاکہ: اے محمد ! کیا تم حسین کو چاہتے ہو؟میں نے عرض کی: جی ہاں! یہ میری آنکھوں کا نور ہے میری خوشبو اور دل کا چین ہے، پس اُس نے اپنا ہاتھ حسین ؑ کے سر پر رکھا اور فرمایا: مبارک ہے یہ مولود اور اُس پر میری برکتیں، درود، رحمت اور رضایت ہو،یہ دنیا و آخرت میں اول و آخر کے شہداء کا سردار ہے ،وہی جوانانِ بہشت کا سردار، اُس کا باپ اُس سے افضل ہے ،پس میرا سلام اسے پہنچائو اور بشارت دیدو کہ وہی میرے اولیاء کے لئے ہدایت کا سبب ، اور خلق کا نگہبان، خزینۂ علم اور میری حجت ہے آسمان و زمین کی مخلوقات پر اورجن و انس پر۔۔۔ انتھی (۱)
توضیح:بعید نہیں ہے کہ’ ترٰائیٰ‘ سے مراد ظہورِ معرفت کا کمال ہو، اور ـ’حسن صورت‘
سے صفتِ کمالیہ وجمالیہ کا ظہور مقصود ہو،نیز ’وضعِ ید‘سے رحمتِ خاصہ کا افاضہ مراد ہو۔ چنانچہ
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۲۳۸ ۔ کامل الزیارات باب ۲۲ ص ۷۰۔
اس حدیثِ شریف میں لطفِ الٰہی کی تعبیرامام ؑ کے لئے چند خصوصیات سے ہے، مگر یہ آپ ؑ کے لئے مخصوص اور باعثِ فخر ہے۔ ’وضعِ ید‘ کے الفاظ سے ایسے لطفِ خاصہ کی جانب اشارہ ہے کہ جس سے اعلیٰ درجہ قابلِ تصور نہیں ہے۔ ’ شبِ معراج ‘ والی حدیث میں ہے کہ نبیٔ اکرم ؐ کی نسبت لطفِ خاص کے طور پر پشت ِ مبارک پر ’وضعِ ید ‘ ہوا(۱)، اِس اختلاف میں بھی خاص حکمت پوشیدہ ہے، نہ کہ امام حسین ؑ کی فضیلت زیادہ ہے بلکہ حقیقت میں نبی اسلام ؐ کی پشتِ مبارک پر ’وضع‘ اور امام ؑ کے سرِ مبارک پر ’وضع‘ ایک ہی ہے۔
[مترجم (شہرستاؒ نی ) کہتا ہے کہ: ’ید‘ قوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، پیغمبر ؐ چونکہ اثقالِ نبوت کے حامل تھے اور اِس کا تعلق پشت کی قوت سے ہے تو افاضۂ قوت بھی اُسی محل پر ہوا، اور امام حسین ؑ نے بندگانِ خدا کی ہدایت و رہنمائی کی ذمہ داری کے لئے راہِ خدا میں سر کٹانا قبول کیا تھا اِس لئے خدا کی جانب سے سرِ مبارک افاضۂ قوت کا محتاج تھا، (واللّٰہ اعلم بأسرارہ)] ۔
دوسری اور تیسری: روایت ہے کہ: خدا وندِ متعال نے بنفسِ نفیس خود امام حسین ؑ کی قبضِ روح فرمائی اور خود ہی آپ ؑ پر نماز پڑھائی (۲)،یہ ساری باتیں پلٹ کر کمالِ لطف کی طرف جاتی ہیں یعنی اِس سے زیادہ ممکن نہیں ہے۔بہرحال خدا نے آپ ؑ کوجس قدر ممکن تھا
اس قدر عطا فرمایا، اور ہم بھی آپ ؑ سے توسل کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ الطافِ الہٰیہ
--حاشیہ--
(۱) بحار ۱۸؍۳۷۳ ۔ تفسیرالقمی ؒ ۲؍۲۴۴۔
(۲) بحار ۴۴؍۱۸۲ ۔ کامل الزیارات باب ۸۸ ص ۲۶۴۔
ہمارے بھی شاملِ حال ہو اور ہماری دنیا و آخرت بھی سنور جائے۔
دوسری قسم: امام ؑ کی نسبت الہٰی عطیہ
کی خصوصیت کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے امام حسین ؑ کو اپنی صفاتِ کمالیہ میں سے چند ایک عنایت فرمائیں ، اور اُن صفات ِ شریفہ سے آپ ؑ کومخصوص فرمایا، وہ یہ ہیں:
اول: کہ صفاتِ جمیلہ میں سے ایک یہ ہے کہ ،اللہ کی تسبیح تمام مخلوقات کرتی ہیں لیکن ہم اُس کی حقیقت سمجھ نہیں پاتے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے(۱)، اسی طرح روایات کے مطابق ، مصائبِ امام ؑ پر تمام اشیاء گریہ کرتی ہیںلیکن ہم اُس گریہ کی حقیقت نہیں جانتے ہیں،مثلاً آسمان کا گریہ خون کی بارش تھی، زمین کا رونا یہ تھا کہ جب کسی بھی پتھر کو ہلاتے اُس کے نیچے سے خون نکلتا تھا، مچھلیوں کا گریہ اپنے آپ کو پانی سے باہر نکالنا تھا، ہوا کا گریہ اُس کا تاریک ہوناتھا، سورج اور چاند کا غم کا اظہار اِن کا گرہن لگنا تھاوغیرہ وغیرہ(۲)۔
دوم یہ کہ:اللہ کی توحید ’ فطریات‘ میں سے ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا: ’ فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھا‘ [فطرتِ الٰہی وہ ہے کہ جس پر اللہ نے تمام لوگوں کو پیدا کیا] (۳)، یہاں تک کہ بت پرست اور زندیق بھی کسی نہ کسی طرح سے اِس پر عقیدہ رکھتے ہیں چاہے وہ زبان سے انکار ہی کریں، بالکل اسی طرح امام حسین کے مصائب کا دل پر اثر
--حاشیہ--
(۱) سورۃ اسراء آیت ۴۴ ۔ (۲) بحار۴۵؍۲۰۲، اور بعد کے صفحات ۔ کامل الزیارات باب ۲۶ ص۸۱۔
(۲) سورۃ روم آیت ۳۰۔
کرنابھی فطری ہے(۱)، یہاں تک کہ جو لوگ آپ ؑ کو نہیں پہچانتے وہ بھی آپ ؑ پر روتے ہیںاور عزا برپا کرتے ہیں جیسے کہ بعض ہندوکہ جو دینِ اسلام سے بیگانہ ہیں۔
یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ امام ؑ کے دشمن بھی دشمنی کے باوجود آپ ؑ پر روتے تھے، جیسے ابن سعد ملعون نے جب امام ؑ کے قتل کا حکم دیا تو رودیا(۲)، اور ملعون جو بی بی فاطمہ بنت حسین ؑ کی چادر چھینرہا تھا وہ روتاجاتاتھا(۳)، اسی طرح دوسرے قاتل بھی بعض حالات میں روتے تھے، حتّٰی یزید پلید بھی کبھی کبھی راتوں کو رویا کرتا تھا(۴)،البتہ اِن تمام واقعات میں اگر کوئی تھا کہ جس کی شقاوت و بیرحمی نے اُسے رونے نہ دیا تو وہ ابن زیاد ملعون تھا، لیکن وہ بھی ایک بار متغیر ہو گیا تھا، جبکہ امام سجاد ؑ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور بی بی زینب ؑ بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمایا: اگر اِس کو قتل کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی قتل کردو،اُس ملعون نے غور سے دیکھا اور متغیر ہو کر کہنے لگا: چھوڑدو اُس کو ، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ جس بیماری میں ہے اُس سے نجات نہیں پا سکے گا(۵) ۔
سوم یہ کہ:اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمالیہ میں حقیقی ’افعل تفضیل‘ جاری نہیں ہوتی (یعنی اللہ کی صفات کاآپس میں موازنہ کرکے کہیں کہ یہ صفت اللہ میں زیاداور یہ کم ہے، نعوذ باللہ ،
--حاشیہ--
(۱) جامع احادیث الشیعہ۱۲؍۵۵۵ ۔ مستدرک وسائل ۲؍۲۱۷۔
(۲) بحار۴۵؍۵۵ ۔ تاریخ طبری۵؍۲۲۸۔
(۳) بحار۴۵؍۸۲ ۔ ا مالی صدوق ؒ مجلس ۳۱ ص ۱۴۰۔
(۴) بحار۴۵؍۱۹۶۔ (۵) بحار۴۵؍۱۱۷ ۔ ار شاد مفید ؒ ۲؍ ۱۲۱۔
یہ غلط ہے، مترجم:حسینی عفی عنہ)،مگر ظاہری طور پر جاری ہو سکتی ہے ،چنانچہ طولانی دعائے
سحر کے تمام جملوں میںملتا ہے، کہ ابتدایوں ہے:’اللّٰہم انی اسئلک من بھائک بأبہاہ وکلّ بہائک بھییّ‘[ترجمہ: خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوںتیرے نور کے نورانی ترین مرتبہ کے ذریعے جبکہ تیرے تمام مراتب نورانی ہیں](۱)اور ایسے ہی بقیہ جملے ہیں، امام حسین ؑ میں بھی اِس مناسبت سے صفت موجود ہے کہ اگر آپ ؑ کے اندوہناک ترین مصائب کرنا چاہیں تو متحیر رہ جائیں کہ کونسی مصیبت کو بڑی اور کس کو چھوٹی قرار دیں، کیونکہ جس مصیبت کوبھی ملاحظہ کریںعظیم نظرآتی ہے، پس یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ’انی ابکی من مصائبک لأعظمہا وکل مصیبتک عظیمۃ‘[ یعنی یقینا میں آپ ؑ کے ان مصائب پر روتا ہوں کہ جو سب سے زیادہ عظیم ہیں جبکہ آپ ؑ کی ہر مصیبت عظیم ہے]
چہارم یہ کہ:اللہ نے اپنی عبادات کے لئے کہ جو بندوں کے تقرب ومرضی ٔ الٰہی کے راستے ہیں ، بے شمارصورتیں رکھی ہیںتاکہ یہ فیض عام رہے بلکہ ہر عمل کے لئے ضرورتاً دوسرا بدل بھی مقرر فرمایا ہے، یہاں تک کہ فقط نیت ہی پر عمل کا ثواب دے دیتا ہے۔
اِسی طرح امام حسین ؑ کے لئے بھی اِس کے مثل قرار دیا ہے، جیسے آپ ؑ کی زیارت کی فضیلت رکھی ہے، اُس کا بدل یہ ہے کہ کسی اور کو نیابت میں بھیج دے، یا دور ہی سے زیارت کرے۔ اِسی طرح امام ؑ پر گریہ کا ثواب بے پناہ قرار دیااور اُس کے اسباب بھی متعدد رکھے، تاکہ کوئی بھی اِس سے محروم نہ رہے۔
--حاشیہ--
()(() (۱) مفاتیح الجنان اعمالِ ماہِ رمضان۔
آپ ؑ کے مصائب کو مختلف رکھا، کیونکہ دلوں میں رقت کے اسباب الگ الگ ہیں ، مثلاً کچھ دل فقط غربت کا ذکر سُن کر منقلب نہیں ہوتے، مگر جب غربت کے ساتھ پیاس کی بات سنتا ہے تو روتا ہے، ہو سکتا ہے کہ کوئی فقط زخم کی بات سنے تو اس پر اثر نہیں ہومگر جب دیکھے کہ زخم ہی کی جگہ پر دوبارہ زخم لگے تو یہ سن کر روپڑے، ہو سکتا ہے کہ کوئی اس پر بھی نہ روئے مگر جب سنے کہ اس کے بعد انہیں پامال کیا گیا تو رو دے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہے کہ آپ ؑ کی ہر مصیبت دوسری سے بڑی اور شدیددکھائی دیتی ہے، تاکہ گریہ کے فیض سے سب بہرہ مند ہو سکیں۔
(مترجم حسینی عفی عنہ : معروف حدیثِ معصوم ؑ ہے ’ من بکیٰ او ابکیٰ او تباکیٰ وجبت لہ الجنۃ ‘[ ترجمہ: جو بھی روئے، رلائے یا رونے والے کی جیسی شکل بنائے ، اس پر جنت واجب ہے]، اِس روایت میں گریہ کی مختلف مراتب کا ذکر ہواہے تا کہ کوئی بھی اجرِ گریہ کے فیض سے محروم نہ رہے)۔
پنجم یہ ہے کہ :جس طرح خدا کا صفاتِ کمالیہ میں کوئی شریک نہیں اِسی طرح امام ؑ کی خصوصیات میں بھی کوئی اُن کا کوئی شریک نہیں ہے۔
ششم یہ کہ: جیسے اللہ کی محبت کی شباہت مخلوق کی محبت میں نہیں پائی جاتی اِسی طرح امام ؑ حسین ؑکی محبت بھی کسی دوسرے کی محبت سے شباہت نہیں رکھتی، جو کہ پیغمبرِ اسلام ؐ نے تعبیر فرمائی کہ’ ایسی پوشیدہ محبت کہ جو مومنین کے دلوں میں ہے‘، جس وقت حضور ؐ امام ؑ سے اظہارِ محبت کر رہے تھے تو سوال کیا گیا۔ جیسا کہ جناب مقداد ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم ؐ ا یک روز امام حسین ؑ کی تلاش میں نکلے، اور اُنہیں ایک باغ میں زمین پر سوتا ہوا پایا، پس حضرت ؐ نے امام ؑ کا سر اٹھایااور اسے پیار سے ہلایااور اپنی زبان اُن کے منہ میں ڈالی ، یہاں تک کہ وہ اٹھ گئے، مقداد ؓ نے عرض کی کہ گویا حسین ؑ بزرگ ہیں !حضرت ؐ نے فرمایا: حسین ؑ کے لئے مومنین کے دلوں میں ایک پوشیدہ محبت ہے(۱)۔یوں امام حسین ؑ کی محبت میں ایسی خصوصیت ہے کہ جو اِ ن کے بابا ؑاور جدبزرگوار ؐ میں نہیں ہے، حالانکہ یہ دونوں افضل ہیںاور اُن کی محبت زیادہ ہونی چاہیئے تھی لیکن حسین ؑ کی محبت میں کچھ ایسی کیفیت ہے جو کثرت سے تعلق نہیں رکھتی، اِس کی چند وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: یہ کہ مومنین کے قلوب فطرتاً امام ؑ اور آپ ؑ کی زیارت کی طرف زیادہ میل رکھتے ہیں،اِسی طرح اُن کے زوّارکی طرف حج اور دوسری زیارتوں اور ان کے زائروں سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔
دوسری وجہ:یہ کہ جب بھی کوئی عراق زیارت کو جائے اور اس سے پوچھیں: کہ کہاں جا رہے ہو یا کہاں تھے؟ تو وہ کہے گا: کربلا! جبکہ وہ نجف، کاظمیں و سامرّاء بھی گیا ہوگا مگر جب ذکر کرے گا تو امام ؑ ہی کی نسبت سے۔
تیسری وجہ: یہ کہ آپ ؑ کا اسمِ مبارک بھی دلوں پرعجیب اثر رکھتا ہے، چنانچہ آپ ؑ کے والدِ گرامی ؑ نے فرمایا: ’یا عبرۃ کلّ مؤمن‘[اے ہر مومن کی آنکھ کے آنسو!](۲)، اور خود
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۷۲ ۔ خرائج ۲؍۸۴۲۔
(۲) بحار۴۴؍۲۸۰ ۔ کامل الزیارات باب ۳۶ ص۱۰۸۔
امام حسین ؑ نے فرمایا:’انا قتیل العبرۃ‘ [ میںشہیدِ اشک ہوں](۱)
(مترجم حسینی عفی عنہ کہتا ہے کہ اِس حدیث کے معنی میں دو احتمال علماء نے ذکرفرمائے ہیں: اول یہ کہ ’میںوہ شہید ہوں کہ جس پر آنسو بہائے جائیں گے‘، دوسرا یہ کہ’ میں وہ شہید ہوں جسے رُلا رُلا کے مارا گیا‘)۔
چوتھی وجہ:یہ کہ آپ ؑ کے مہینہ، یعنی محرم، کے آتے ہی دل مغموم ہو جاتے ہیں (۲)۔
پانچویں وجہ:یہ کہ آپ ؑ کے مصائب کو کئی بار سننے سے بھی تھکن اور خستگی محسوس نہیں ہوتی، کہ اگر ایک دن میں ہزار مرتبہ بھی سنیں کہ آپ ؑ کو پیاسا شہید کیا گیا ،یا غربت میں اور تنہا شہید کیا گیا اور آپ ؑ مدد کے لئے استغاثہ کر تے تھے تو مومنین کے نالے بلند ہو جاتے ہیں۔
تیسری قسم:امام ؑپر کلامِ الٰہی کے ذریعے الطافِ خاصہ
امام حسین ؑ سے اللہ کا تکلم فرمانا بھی خاص الطافِ الٰہیہ ہے، جس طرح جناب آدم ؑ کے سامنے مصائبِ امام ؑ بیان فرمائے(۳) ، اِسی طرح حضرت موسٰی ؑسے اِس بارے میں کئی مرتبہ گفتگو ہوئی(۴)اوردوسرے انبیاء ؑ سے بھی (۵)، آگے یہ ذکر آئے گا،انشاء اللہ۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۸۰ ۔ کامل الزیارات باب ۳۶ ص۱۰۸۔
(۲) بحار۴۴؍۲۸۴ ۔ امالی صدوق ؒ مجلس۲۷ ص۱۱۲۔
(۳) بحار۴۴؍۲۴۲ و ۲۴۵
(۴) بحار۴۴؍۲۴۴ و ۳۰۸ ۔ (۵) بحار۴۴؍۲۴۲ و ۲۴۴۔
وہ تکلمات کہ جو اللہ اور امام حسین ؑمیں خود ہوئے کثرت سے ہیں:
اُنہیں میں سے وہ روایت ہے کہ جو أنس سے مروی ہے کہ کہتا ہے: میں امام حسین ؑ کے ساتھ تھا، آپ ؑ جناب خدیجہ ؑ کی قبر پر پہنچے اور مجھ سے فرمایا :کہ اے انس تم جائو، انس کہتا ہے کہ میں کونے کی طرف جا کر چھپ گیااور آپ ؑ نماز میں مشغول ہو گئے،کافی دیر ہو گئی، پھر میں نے سُناکہ آپ ؑ کہہ رہے تھے:
یا ربّ، یا ربّ، انت مولاہ فارحم عبیداً الیک ملجأہ
یاذالمعالی علیک معتمدی طوبی لمن کنت انت مولاہ
طوبی لمن کان نادماً ارقاً یشکوا الی ذی الجلال بلواہ
وما بہ علۃ و لا سقم اکثر من حبہ لمولاہ
اذ اشتکی بثہ و غصتہ اجابہ اللّٰہ ثم لبّاہ
اذ ابتلی بالظّلام مبتہلا اکرمہ اللّٰہ ثم ادناہ
ترجمہ:پروردگارا! پروردگارا!تو مولیٰ ہے، اُس بندہ پر رحم فرما کہ جس کی پناہ تو ہی ہے ، اے خدائے متعال تو ہی میرا سہارا ہے، مبارک ہو اُسے جس کا مولیٰ تو ہو، مبارک ہو اُسے کہ جو اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہواور راتوں کو بیدار رہتا ہو ،اپنی شکایت تیرے پاس لاتا ہو،ایسے بندہ کا غم و اندوہ اپنے مولیٰ کی محبت سے زیادہ نہیں ہے، اور جب وہ شکایت کرتا ہے تو اُس کا مولیٰ اُسے جواب دیتا ہے اور لبیک کہتا ہے، اور جب وہ مظالم کا شکار ہوکر راتوں کو تضرع وزاری کرتا ہے تو اللہ اُس پر نواز ش کرکے’ مقامِ قرب‘ عطا کرتا ہے۔
پس جواب آیا:
لبیک عبدی و انت فی کنفی و کلما قلت قد علمناہ
صوتک تشتاقہ ملا ئکتی فحسبک الصوت قد سمعناہ
دعاک عندی یجول فی حجب فحسبک الستر قد سفرناہ
لوہبت الریح من جوانبہ خرّ صریعاً لما تغشاہ
سلنی بلا رغبۃ و لا رہب و لا تخف اننی انا اللّٰہ (۱)
ترجمہ:لبیک اے میرے بندے!تو میری حمایت کے سایہ میں ہے، جو تو نے کہا ہم سُنا، میرے فرشتے تیری آواز کے مشتاق ہیں ،تیرے لئے یہی کافی ہے کہ ہم نے تیری آواز سُن لی، تیری دعا حجابوں میں جولانی لاتی ہے، تیرے لئے یہی بس ہے کہ حجابوں کو ہم نے اٹھالیا، اگر اُن کے اطراف سے ہوا چلے تو اُس کے سامنے گر پڑے، جو مانگنا ہو بے خوف وخطر مانگو، مت ڈرو کہ میں ہی اللہ تعالیٰ ہوں۔
’ارِق‘ راء کے کسرے کے ساتھ ، وہ شخص کہ جو رات جاگتا ہے، اور ’لو ہبّت‘ سے مراد یہ ہے کہ جب بھی ہوا چلے اُس دعا کے اطراف، اور اُس کی جگہ کوئی انسان ہو تویقینا وہ اُس مقام کی ہیبت کے سبب غش کرجائے گا، یا یہ کہ اشارہ خود امام ؑ ہوں کہ شدتِ خشوع کے سبب اِس قدر بے خود ہوںگے اگر ہوا چلے تو زمین پر گر جائیںگے۔
نیز وہ مخصوص آوازیں کہ جو روزِ عاشورا کو امام ؑ کے لئے دی گئی، اُن میں سب سے
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۱۹۳۔
اشرف نداء ’یا ایتہاالنفس المطمئنۃ ‘ [اے نفسِ مطمئنہ]ہے۔
چوتھی قسم : نبی ؐکے قلب کا امام ؑ کو عطیہ
جو چیزیں اللہ نے امام ؑ کو عطا فرمائیں اُن میں اشرفِ مخلوقات یعنی رسول ِاکرم ؐ سے بھی متعلق ہیں ، اِس میں کچھ امور ہیں:
اول: اُن عطیات کے بیان کی تعدادکا اجمالی جائزہ۔ دوم اُن کی تفصیلات کا بیان۔سوم اُن عطایا سے بڑھ کرجو ہیں اُن کا بیان۔
امراول، کہیں گے کہ اللہ نے امام ؑ کو نبی ٔ اکرم ؐ کا قلب، روح، عقل، قوۃ باصرہ، شامّہ، چشم، دو آنکھوں کے درمیانی جگہ، غذا، کاندھے، پُشت، آغوش، زبان، ہاتھ، انگلیاں، سینہ، ہونٹ، کلام اور اُن کا فرزند۔۔۔سب کچھ عطا فرمایا۔
امر دوم، اِن امور کی تفصیل میں کہیں گے: قلبِ نبی ؐ امام حسین ؑ کو عطا کرنے کی دلیل خوس رسولِ گرامی ؐ کا کلام ہے کہ فرمایا: ’انہ مہجۃ قلبی‘(۱) [یہ میرے دل کی جان ہے]، نیز جو مخصوص محبت کی کیفیت امام ؑ سے آنحضرؐت کو تھی اُس کا اظہار کسی سے ملاقات کے وقت نہیں فرماتے تھے۔ کبھی کسی مجلس میں اصحاب کے ہمراہ وقار و اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور امام ؑ وہاں سے گزرتے تو آپ ؐ اپنی بات وپیں چھوڑدیتے اور اٹھ کر امام ؑ کا استقبال کرتے ، اپنے دوشِ مبارک پر بٹھاتے اور اپنی گود میں بٹھاتے۔ اِس سے زیادہ عجیب تر یہ تھا
کہ خطبہ کے دوران جب بھی امام حسین ؑ آتے، رسولِ اسلاؐم فوراً خطبہ کو چھوڑتے اور منبرسے
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۴۸۔
اتر کر امام ؑ کا استقبال کرتے اور فرماتے: واللہ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میں منبر سے نیچے آگیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے(۱)۔
یہ تمام باتیں اشارہ دیتی ہیں کہ آپؐ امام حسین ؑ سے کس قدر قلبی لگائور کھتے تھے، اِ س سے بڑھ کر وہ روایت ہے کہ جو ابن ماجہ نے کتابِ سنن میںاور زمخشری نے کتابِ فائق میں نقل کی ہے کہ حضورِ اکرم ؐ ایک روز امام حسین ؑ کو گلی میں دیکھاکہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، پس آپ ؐ امام ؑ کی طرف دوڑے اور ایک ہاتھ سے پکڑنا چاہامگر امام ؑ اُن کے ہاتھ سے نکل گئے، نبی ؐمرسل مسکرائے اورآخرکار انہیں پکڑلیا اور ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا سر پر رکھ کر اٹھایا اور منہ پر منہ رکھ کر بوسہ دیا ، پھر فرمایا: ’انا من حسین و حسین منّی‘[میںحسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے]، خدا اسے دوست رکھتا ہے جو حسین کو چاہتا ہے، حسین میری اولاد میں سے ہے(۲)۔
یہ جان لو کہ حسین ؑسے یہ عشق و تعلق فقط اُنہیں تک نہیں ہے بلکہ اُن کے چاہنے والوں تک بھی یہ فیض پہنچتا ہے، چنانچہ رسولِ اسلام ؐ نے خدا کو گواہ بنا کے فرمایا کہ میں حسین کو چاہتا ہوں اور اُس کے چاہنے والوں کوبھی چاہتا ہوں، اور فرمایا: اے خدا تو بھی حسین کے چاہنے والوں کو دوست بنا لے(۳)۔ایک روز کوئی بچہ گلی میںملاتو آپ ؐ نیچے بیٹھ گئے اور اُس
--حاشیہ--
ّ(۱) بحار۴۳؍۲۹۵ ۔ مناقب ۳؍۲۲۶ ۔
(۲) بحار۴۳؍۲۹۶ ۔ مناقب ۳؍۲۲۶ ۔
(۳) بحار۴۳؍۲۷۵ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۲۵ ۔
بچہ کوپکڑ کے اُس کی نازبرداری کرنے لگے، کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا:یہ بچہ میرے حسین کو چاہتا ہے، کیونکہ میں نے دیکھا کہ اُس کے قدموں کی خاک اٹھا کر اپنے چہرہ پرمَلتا ہے، اور جبرئیل ؑ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ کربلا میں انصارِ حسین ؑ میں سے ہوگا(۱)۔
ہم بھی پُر امید ہیں کہ اما م حسین ؑ کے چاہنے والوں میں شمار ہو جائیں یوں رسولِ گرامی ؐ کے محبوب ہو جائیں اور خدا بھی اُن ؐ کی دعا سے ہمارادوست ہو جائے اور ہمارے گناہوں سے درگزر فرمائے۔(آمین)
اللّٰہ نے نبی ٔ اسلام ؐ کی روح،جان و عقل
امام حسین ؑ کوعطیہ دیں
آنحضرت ؐ کی روح، جان و عقل امام ؑ کو عطا ہوئیں، جیسا کہ خود فرمایا:حسین میری روح، میوۂ دل اور دل کا سکون ہے(۲)، قوۃ باصرہ اور غذا کے لئے فرمایا: میں جب بھی اُس کی طرف دیکھتا ہوں تومیری بھوک ختم ہو جاتی ہے(۳)،شامّہ و چشم کے بارے میں فرمایا:حسین ؑ میری خوشبو اور آنکھوں کا نور ہے(۴) ، آپ ؐ کی پشت کے سلسلے میں ، پس آپ ؐ
امام ؑکے مرکب تھے، ایک آدھ مرتبہ نہیں بلکہ متعدد بار، حتی کہ غیر عادی تھا، چنانچہ کبھی نمازِ جماعت کے سجدہ میںآپ ؐ کی پشت پر امام ؑ سوار ہوجاتے اور آپ ؐ سجدہ کو طول دیتے یہاں
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۴۲ ۔
(۲) بحار۴۴؍۲۶۰ ۔ کامل الزیارات باب ۲۲ ص۶۸۔
(۳) بحار۴۳؍۳۰۹ ۔ (۴) بحار۴۴؍۲۶۰ و ۴۳؍ ۲۷۰ ۔
تک کہ وہ خود نیچے اتر آئیں ، پھر تعجب سے اصحاب پوچھتے کہ کیوں سجدہ اِس قدر طولانی فرمایا کیا کوئی وحی آئی تھی؟تو آپ ؐ جواب دیتے: نہیں میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہو گیا تھا(۱)،
رسول ؐ کے کاندھے کے لئے ، یہ بھی امام ؑ کی جگہ تھی،امام حسن ؑ کے ساتھ اِنہیں گود میں اٹھاتے اور کوچہ و بازار میں گھومتے، جب اصحاب اُنہیں لینا چاہتے تو فرماتے : بہترین راکب ہیں، البتہ کبھی کبھی حضرت جبرئیل ؑ نیابت کے طور پر انہیںگود میں لے لیتے تھے(۲)۔
رسولِ اکرم ؐ کا دامن بھی امام ؑ کے بیٹھنے کی جگہ تھی، جیسا کہ ولادت کے فوراً بعد آپ ؐ نے فرمایا: اے اسماء ! میرے بچے کو میرے پاس لے آئو، عرض کی: ابھی میں اُسے پاک نہیں کیاہے، فرمایا: کیا تم اُسے پاک کروگی!اُسے خدا نے پاک و پاکیزہ کیا ہے(۳)، امام ؑ کی کفالت اللہ کے رسول ؐ فرماتے تھے ، انگوٹھے سے دودھ پلاتے اور کھیلا کرتے تھے، نیز اُنہیں لوری بھی سنایا کرتے تھے(۴)، بچوں کے سے انداز میںاُن سے باتیں کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب کچھ صحابی آپ ؐ پر تعجب سے اعتراض کرتے تو فرماتے: جو تم لوگ دیکھ رہے ہو، اُس کی فضیلت و الفت، اُس سے کئی گنا زیادہ مخفی ہے(۵)، معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ تمام
اقوال و افعال اللہ کے حکم سے تھے، یہاں تک کہ سجدہ کو طول دینا، گود میں اٹھانا، گلی کوچوں
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۹۶ ۔ مناقب۳؍۲۲۷، متن میں امام حسن ؑ کے لئے ہے، بحار۴۳؍۲۹۴ ۔ مناقب۳؍۱۱۸۔
(۲) بحار۴۳؍۳۱۶ ۔ مثیر الاحزان ص۱۱۔
(۳) بحار۴۳؍۲۴۳،یہاں اسماء کے بجائے صفیہ کا نام مذکورہے ۔
(۴) بحار۴۳؍۲۵۴ و ۲۵۹ ۔ مناقب۳؍۲۰۹ ۔(۵) بحار۴۳؍۲۶۹ ۔ کا مل الزیارات باب ۱۴ ص۵۰۔
میںاُ ن کے ساتھ بھاگنا، استقبال کرنا اور خطبہ منقطع کرنا۔۔۔ اِن سب کی وجہ بعد میں آئے گی(انشاء اللّٰہ)۔
اور آپ ؐ کے ہونٹوں کا معاملہ، ہمیشہ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کوسونگھا کرتے اور اپنے آپ سے دیر تک لپٹائے رکھتے اور فرماتے: یہ دونوں میری خوشبو ہیں(۱)، اور معروف ہے کہ ایک دن پیغمبرِ اعظم ؐ نے امام حسن ؑ کا منہ چوما اور امام حسین ؑ کا گلا چوما، پس امام حسین ؑ ناراض ہو کر مادرِ گرامی ؑ کے پاس شکایت کی۔ میں نے روایات میں یہ نہیں دیکھا ، جو دیکھا وہ یہ ہے کہ امام حسین ؑ کے کبھی گلے کے بوسے لیاکرتے، کبھی پیشانی کے، کبھی تمام بدن کے، کبھی شکم سے کپڑا ہٹا کر بوسے لیتے، کبھی ناف سے اوپر والی جگہ پر بوسے لیتے، کبھی دندانِ مبارک کے (۲)، کبھی ہونٹوں کے بوسے لیتے اور یہ رسول ؐ کا ایک واضح معجزہ ہے ، جس کا سبب آپ ؐ یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے:کہ میں تلواروں کی جگہوں پر بوسے دے رہا ہوں(۳)اور رو رہا ہوں، البتہ دندانِ امام ؑ اور ناف کے اوپر والے حصے کا اُس وقت پتہ چلا کہ جب دندانِ مبارک پر چوبِ خیزران تھی اور ناف کے اوپر تین منہ والا تیر پیوست تھا۔
امام ؑ کے اِن احترامات سے تخصیص کا سبب
ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ امام ؑ کو اِن خاص احترامات سے کیوں نوازا گیا، اِس کی
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۶۴ ۔ عیون الاخبار۲؍۲۷۔
(۲) بحار۴۳؍۲۶۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۲ ص۷۰۔
(۳) بحار۴۳؍۲۶۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۲ ص۷۰۔
کچھ وجوہات ہیں:
اول: امام ؑ کے مرتبہ و مقام کو واضح بیان کرنا۔
دوم: امام ؑ کی نسبت ہونے والی ہر ہتکِ حرمت کے مقابلہ میں ایک احترام نظر آئے تاکہ اُس مصیبت کی شدت کا احساس ہو سکے، مثلاً رسولِ اسلام ؐ کا استقبال کرنا، اِ س کے مقابلہ میں وہ حالت کہ لوگ تیار نہیں تھے کہ آپ ؑ کے ساتھ کسی ایک منزل میں اکھٹا ہوں تاکہ مدد نہ کرنی پڑجائے، اور اگر کسی کا استقبال راستہ میں کرتے کہ کچھ خبر وغیرہ ملے تو وہ راستہ بدل کر دوسری طرف نکل جاتا، جیسا کہ زہیر ؓ اور دو اسدی ؓ لوگ کا واقعہ ہے(۱)۔
سوم: آپ ؑ کے دل میںخوشی ڈالنا چاہتے تھے تاکہ اُن کے حزن و ملال کاکچھ مداوا ہو جائے، پس اُسے بھی اتنا زیادہ ہونا چاہیئے کہ مصائب و آلام کی برابری کر سکے، پس اے مومنو! آپ بھی رسولِ اسلام ؐ کی تأسی کرتے ہوئے امام ؑ کے دل کو خوش کرنے، اُن کے کرب کو مٹانے اور گریہ و زیارت کے علاوہ اُن کی دعوت پر لبیک کہنے کی کوشش کریں۔
امرِ سوم: تمام مذکورہ بالا بیان سے بڑھ کریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام حسین ؑ کو خود حضور ؐ عطا فرمائے، یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ خود آپ ؐ کا کلام موجود ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
’ حسین منی و انا من حسین‘ [ترجمہ: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں](۲)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۳۷۱ و ۳۷۳ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۷۴ و ۷۵۔
(۲) بحار۴۳؍۲۷۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۱۴ ص۵۲۔
پانچویں قسم: امام حسین ؑ کو عرش عطا کیا جانا
جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے امام ؑ کو عطا کیں اُن میں اعظم ِمخلوقات یعنی عرش ہے،اِس عطا میں کچھ کیفیات ہیں ،مثلاًاِس طرح کہ آپ ؑ کو عرش کا سایہ عطا ہوا کہ جہاں قیامت میں آپ ؑ کی مجلس ہوگی، اور آپ ؑ وہاں زائرین اور گریہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کررہے ہوں گے، پس جنت کی حوریں پیغام دیں گی کہ جنت میں آئیں ہم آپ کے مشتاق ہیں مگر وہ لوگ منع کریں گے اور کہیں گے کہ ہم امام ؑ کے ساتھ گفتگو میں محوہیں(۱)۔
نیز امام ؑ کو عالمِ برزخ میں یمینِ عرش کی جگہ دی گئی ہے، جہاں سے آپ ؑ اپنی شہادت کی جگہ کو، زائرین کو، رونے والوں کو دیکھتے ہیں اور اُن کے لئے استغفارخود بھی کرتے ہیں اور اپنے والد (علی ؑ) اور نانا (رسول ؐ) سے بھی التماس کرتے ہیں کہ وہ بھی اِن سب کے لئے استغفارکریں(۲)۔
اِسی طرح آپ ؑ کو فوقِ عرش کی جگہ بھی عطا ہوئی کہ جہاں آپ ؑ کے زائرین سے اللہ تعالیٰ گفتگوفرمائے گا، جیسا کہ آپ ؑ کی زیارت کی فضیلت میں آیا ہے(۳)۔ پس عرش زوّار کی گفتگو کی جگہ ہے،اُس کا سایہ بھی زوّار کے لئے کہ جب وہ خود امام ؑ سے گفتگو کرے گا،اور فوقِ عرش بھی زوّار کی جگہ کہ جب اللہ تعالیٰ اُن سے گفتگو کرے گا۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۲۰۷ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۶ ص۸۱۔
(۲) بحار۴۴؍۲۸۱ ۔ ا مالی طوسی ؒ ۱؍۵۴۔
(۳) بحار۹۸؍۷۳ ۔ کا مل الزیارات باب ۵۴ ص۱۴۱۔
اور امام ؑ کو عرش کے سائے بھی عطا ہوئے کہ زیارت میںہے کہ فرمایا: تیرے خون کے سبب عرش کے سائے لرزنے لگے، اور تجھ پر روئے(۱)،نیز آپ ؑ کو ایسی چیزیں عطا ہوئیں کہ جو عرش کو عطا ہوئیںجیسے وہ ملائکہ جو ( قبرِ مبارک کے ) اطراف میں ہیں اور (اُس کا) طواف کرنے والے ہیں، جس کا بیان بعد میں آئے گا(انشاء اللّٰہ)۔
اِ ن تمام سے بڑھ کر ، یہ ہے کہ پورا عرش ہی آپ ؑ کو عطا ہوگیا، چونکہ عرش کی زینت امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ قرار دیئے گئے ہیں(۲) ۔
ہر چیز اپنی زینت سے ہی کامل ہوتی ہے ،پس اگر عرش کو زبان مل جائے تو وہ یہی کہے گا: میں حسین سے ہوں۔
چھٹی قسم: امام ؑ کو بہشت کا عطیہ
امام ؑ کو عطا ہونے والی چیزوں میں احسنِ مخلوقات یعنی بہشت بھی ہے،اِس میںوہ درخت ہے کہ جو خاص آپ ؑ کے لئے مقرر فرمایا(۳)، نیز خاص محل(۴)،حورالعین سے ’قابلہ ‘ امام ؑ کے لئے مقررفرمائی تھی کہ جس نے سب کو عزادار کردیا(۵)، ایک حور خاص آپ ؑ
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۱۵۲ ۔ کا مل الزیارات باب ۷۹ ص۱۹۹۔
(۲) بحار۴۳؍۲۷۵ و ۲۷۶ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۱۳۱۔
(۳) بحار۴۳؍۳۱۵ ۔
(۴) مناقب ۳؍۲۲۹۔
(۵) ناسخ التواریخ ۴؍ ۲۶ ’مدینۃ المعاجز‘
کے لئے خلق فرمائی(۱)، ایک دروازہ آپ ؑ کے نام سے مخصوص کرکے اُس کا نام ’باب الحسین ؑ‘ معیّن فرمایا، کہ جو بہشت کے تمام دروازوں سے بڑا ہے(۲)، بلکہ دیکھا جائے تو پوری جنت ہی آپ ؑ کی ہے، کیونکہ یہ ساری جنت ہی آپ ؑ کے نورِ مبارک سے خلق ہوئی ہے(۳)، اگر کبھی جنت کو قوۂ گویائی عطا ہو تو کہے گی:’ انا من حسیؑن ‘ ۔
ساتویں قسم:امام ؑ کوباقی تمام مخلوقات
سے جو عطا ہوا
اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو تمام مخلوقات سے جو عطا کیااُس کے بارے میں اجمالاً چند چیزیں ابواب میں پیش کر رہے ہیں:
باب الملائکہ، باب الانبیاء، باب ازمنہ، باب السماء، باب ہوا و فضا، باب الماء، باب اشجار، باب انہار، باب بحار، باب انس، باب جن ، باب طیور و وحوش، باب بہائم، باب الجبال، باب اوضاع نشا ٔۃ ظاہریہ۔
باب سماء
معلوم ہو کہ اللہ نے سماوات سے امام ؑ کو کچھ خصوصیات عطا کیں:
اُ س میںسے: آپ ؑ کے روزِ شہادت امام ؑ کی روح آسمان کی جانب بلند ہوئی، اوروہ امام ؑپر رویاخون سے (۴)، سرخ خاک سے(۵)، اورشفق کی سرخی سے(۶) ۔
--حاشیہ--
(۱) مناقب ۳؍۲۲۹ ۔ (۲) و (۳) بحار ۲۵؍۱۶۔ (۴) بحار ۴۵؍۲۱۵ ۔ مناقب ۳؍۲۱۲ ۔
(۵) بحار۴۵؍۲۱۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۸ ص۹۰۔ (۶) بحار۴۵؍۲۱۵ ۔ مناقب ۳؍۲۱۲ ۔
نیزکربلا کو اُن سے افضل خصوصیات عطا ہوئیں کہ جو سماء کو ظاہری و معنوی طور پر ملیں اور امام حسین ؑ کو وہ کچھ عطا ہوا کہ جو سات آسمانوں کو ملابلکہ اُن سے بہترصفاتِ معنویہ، ذرا آنکھیں کھولو اور دوبارہ تمام موجودات کو دیکھو۔
آسمان اللہ کے فیض کا معدن ہے او ر حسین ؑ بھی فیضِ الٰہی کاایسا معدن ہے جس تک پہنچنا زیادہ آسان ہے۔
آسمان دعا کے پہنچنے اوراستجابت کی جگہ ہے، اور حسین ؑ کا نام دعا کے استجابت کا سبب ہے، جیسا کہ حضرت آدم ؑ (۱) ، حضرت زکریا ؑ(۲)اور پنجتنِ پاک ؑ سے متوسل ہونے والے دوسرے لوگوں کے واقعات میں ملتا ہے ۔
آسمان تک مظلوموں کی آواز پہنچتی ہے جبکہ کربلا سے مظلوموں کی صدائیں خاص کیفیت سے پہنچیں۔ (فارسی شعرکاترجمہ: کربلا کے پیاسوں کی صدائے العطش ہنوز آسمان تک پہنچ رہی ہے)۔
آسمان ، کی جانب یتیموں کا نالہ وبکا پہنچتا ہے جس کے سبب اُس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، اور کربلا سے بھی یتیموں کے نالہ و فریاد خاص طریقے سے اٹھے۔
آسمان میں ’براق‘ ہے کہ جس نے اپنے سوار کو ’قاب وقوسین‘ کے مقام تک پہنچایا،
اورکربلا میں ’ذوالجناح‘ تھا کہ جس کا سوار زین سے گر کر ’انا من حسین ‘کے مقام تک پہنچ
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۴۵۔
(۲) بحار۴۴؍۲۲۳۔
گیا۔
آسمان انبیا ؑء کی معراج ہے اور کربلا ملائکہ کی معراج ہے، آسمان اس کیفیت میں ہے کہ ہوا کے اختلاف کا باعث بنتا ہے، اور کربلا کا حال یہ ہے کہ آسمان وعرش پر اثر ڈالتا ہے۔
آسمان و عرش میںملائکہ کی آوازیں گونج رہی ہیں کہ کوئی تسبیح کوئی تہلیل، کوئی تکبیر تو کوئی تحمید کررہا ہے، کوئی قیام میں ہے تو کوئی رکوع میں اورکوئی سجدہ وغیرہ میں ، کربلا میں بھی صدائیں گونج رہی تھیںکہیں بیکسوں کے نالے تھے، کہیں مظلوموں کی فریادیں، کہیں یتیموں کا واویلا تھاتو کہیں پیاسوں کی سسکیاں، کوئی یاأباہ کہتا، کوئی واأخاہ پکارتا، کوئی وا والداہ کہہ کر چیختا، تو کسی کا نالہ واسیداہ ہوتا، اور یہ نالے خدا کی بارگاہ میںملائکہ کی تسبیح و تقدیس سے زیادہ افضل ہیں کیونکہ مقامِ عبودیت و تسلیم میں ہیں۔
آسمان ملائکہ کا آدم ؑ کے لئے سجد ہ کرنے کی جگہ ہے، اور کربلا انبیاء ؑ و ملائکہ کے جسدِ حسین ؑ پر نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔
آسمان کو اللہ نے محفوظ چھت قرار دیا،اور کربلا وہ چھت ہے کہ جو پناہ مانگنے والوں کی حفاظت کرتی ہے۔
آسمان کواللہ نے اونچی چھت بنایا، اور کربلا توسل کرنے والوں کے درجات کو اونچا کرنے والی چھت ہے۔
آسمان سے ’آبِ طہور ‘ (پاک پانی)نازل ہوتا ہے، اور حسین ؑ وہ ہے کہ جس کی برکت سے بارش نازل ہوتی ہے، استسقاء کی صورت میں آپ ؑ کی وجہ سے بارش نازل ہوئی اور زمین سیراب ہوگئی(۱)، اور آپ ؑ ہی کے سبب سے وہ پانی نازل ہوتا ہے کہ جو تمام گناہوں کو دھو دیتا ہے (۲) اور آتشِ جہنم کو بجھا دیتا ہے(۳)یہ بعینہ بہشت کے پانیوں میں سے ہوگا، اور وہ رونے والوں کی آنکھوں سے گرنے والاآنسو ہے۔
آسمان بندوں کے ظاہری رزق کی جگہ ہے، اور حسین ؑ اور ائمہ طاہرین ؑ رزقِ معنوی کے معادن ہیں۔یاد رکھیں کہ آسمان میں عرشِ عظیم ہے اور کربلامیں عرش کی زینت ہے۔
آسمان ملائکہ کا مسکن ہے تو کربلا ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ ہے۔
آسمان ذاتِ بروج ہے تو امام حسین ؑ بھی ذاتِ بروج ہیں، چنانچہ روایت میں ہے کہ چونکہ خود امام ؑہیں ، آپ ؑ کے والد،بھائی اور اولاد نو ائمہ ہیں(۴)۔
آسمان میں وہ گھر ہے کہ جسے ’ ضُراح ‘(۵)کہتے ہیں کہ جو ملائکہ کے طواف کرنے کی جگہ ہے، ہر روز ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیںاور پھر دوبارہ اُن کی باری نہیں آتی، اِسی طرح کربلا میں جو ضریح ہے اُس پر بھی ہمیشہ ستر ہزار فرشتے مأمورہیں ہر روزنئے ستر ہزار فرشتے وہاں نازل ہوتے ہیں اور جاتے ہیں اور اُن کی باری دوبارہ نہیں آتی(۶)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۱۸۷۔ (۲) بحار۴۴؍۲۸۴ ۔ امالی صدوق ؒ مجلس ۲۷ ص۱۱۰۔
(۳) بحار۴۴؍۲۹۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۳۲ ص۱۰۲۔
(۴) بحار۳۶؍۲۹۰ ۔ کفایۃ الاثر ص۴ و ۵۔
(۵) ’ ضُراح‘ ایک گھر آسمان میں خانہ کعبہ کے محاذات میں ہے ، بقولی اُسے’ بیت المعمور ‘کہتے ہیں۔(لسان العرب۸؍۴۴) (۶) بحار۹۸؍۴۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۶۵ ص۱۵۹۔
آسمان میں بہشت ہے، اور کربلا میں زینتِ بہشت ہے، اور وہ بہشت کا ٹکڑا ہے، اُس کی جگہ ہے کہ جس کے نور سے بہشت خلق ہوئی اور وہ جوانان بہشت کا سردار ہے ۔
ٍ آسمان میں جبرئیل ؑ ہیں اور کربلا میںوہ ہیں کہ جن کا خادم جبرئیل ؑ ہے۔
آسمان وہ مکان ہے کہ جہاں رسولِ اسلام ؐ نے رات کو سیر کی اور کربلا وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ ؐ نے دن میں سیر فرمائی۔
آسمان میں حضرت موسٰی ؑکا قبّہ ہے اور کربلا میں شجرۂ موسٰی ؑ ہے(۱)۔
آسمان میں حضرت عیسٰی ؑ ہیں اور کربلا میں عیسٰی ؑ کی جائے پیدائش ہے(۲)۔
آسمان میں سورج ہے کہ جسے کبھی گہن لگ جاتا ہے، اورحسین ؑ وہ سورج ہیں کہ جس قدر مصیبت بڑھتی جاتی تھی اُسی قدر آپ ؑ کے چہرے کی چمک بھی بڑھتی جاتی تھی۔
آسمان میں چاند ہے اور کربلا میں قمرِ بنی ہاشم، حضرت عباس ؑ ہیں کہ جواُس وقت گہنا گئے کہ جب جنگ میں امام ؑ اور آپ ؑ میں دشمن حائل ہو گئے۔
آسمان میں’ کف الخضیب‘(۳)ہے کہ دعاکی استجابت کا سبب ہے، اور کربلا خضیب (رنگین)سر، بدن اور صورت ہے کہ جو استجابتِ دعا کا سبب ہے۔
آسمان میں سات سیاروں ہیں اور کربلا میں آل عبد المطلب کے ستارے ہیں۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۱۰۸ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۲۹۔
(۲) بحار۹۸؍۱۱۶ ۔ تھذ یب باب ۶؍۷۳۔
(۳) ستاروں کا مجموعہ کہ جو روز زوال کے وقت نصف النھار کے دائرہ میں آتے ہیں ، یہ دعا کی استجابت کا وقت ہے۔
آسمان میں ایک ہزاراور پچیس ستارے روشن ہیں اور چُھپے ہوئے ستاروں کا شمار نہیں، اور حسین ؑ کے جسمِ مبارک پر تیر ، نیزہ و شمشیر کے چار ہزار زخم ظاہر تھے اورچُھپے ہوئے بے شمار تھے!
آسمان میں’ قطب‘ اور ’بنات النعش‘ہیں، کربلا میں قطبِ امامت کی جگہ اور آپ ؑ کی بیٹیاں اما م ؑ کی لاش کے اطراف حیران و پریشان تھیں۔
آسمان میں ایک ستارہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں گویادیو کا سر(۱) ہے، اور کربلا میں دیو گویا سرِ حسین ؑ اٹھائے ہوئے ہے۔
آسمان میں بیت المعمور ہے کہ جو ضُراح اور کعبہ کے سامنے ہے ، کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیںاور پھر دوبارہ اُن کی باری نہیں آتی ، اور امام ؑ کے لئے بھی طواف کرنے والے فرشتے ہیں جس کا ذکر گزرا مزید آگے بھی آئے گا(انشاء اللہ)۔
آسمان میںمجر ّہ ہے کہ جو کہکشاں ہوتی ہے، اور حسین ؑ میں بھی مجر ّہ زخموں کے اثر سے ہے جس کا اثر محشر تک رہے گا، تاکہ گناہگاروں کی شفاعت کا سبب بن سکے۔
باب ِ زمین
امام حسین ؑکو ایسی زمین کا ٹکڑا عطا ہوا کہ جو زمینوں میں سب سے اشرف و اعلیٰ زمین ہے (۲) ۔امام ؑ کے لئے زمین کی کچھ خصوصیات قراردی گئیں ہیں، اُن میں:
--حاشیہ--
(۱) ستاروں کا وہ مجموعہ جو کھڑے ہوئے لوگوں کی مانند ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ دیو کا سر لئے کھڑے ہیں ۔
(۲) بحار۹۸؍۱۰۶ و ۱۰۷ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۶۷ و ۲۶۸۔
زمین سونا، چاندی اور جواہر کی معدن ہے،اور حسین ؑ بہشت کے محلات کا معدن ہیںکہ موتی، یاقوت، سونا وچاندی پر مشتمل ہے۔
زمین ہر پودا، درخت اُگنے کی جگہ ہے، اور حسین ؑ اللہ کے عام فیوضات کے پھوٹنے کی جگہ ہیں۔
زمین بندوں کے استرحت اورزندہ و مردہ لوگوں کی آسائش کی جگہ ہے، اور حسین ؑ دائمی استراحت کا سبب ہیںاور کربلا زندہ و مردہ لوگوں کے لئے آرام کی جگہ ہے۔
بابِ ہوا و فضا
اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کو حائر اور آسمان کے مابین ہوا و فضا میںکچھ اوصاف عطا فرمائے کہ جیسے:
اول: یہ فرشتوں کی آمد و رفت کی جگہ ہے(۱)، وہ سیڑھی ہے کہ جس سے زائرین محترم کے اعمال عالمِ بالا کی طرف جاتے ہیں(۲)۔
نیز اسما عیل فرشتہ کی جگہ ہے کہ جو ہوا پر مقرر ہے اور روزانہ وہاں آکر حائر کے فرشتوں سے پوچھ گچھ کرتا ہے(۳)۔
دوم:اِس جگہ سے ایسا عمل فضائے بالا کی جانب گیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ہے اور وہ
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۶۲ ۔ کا مل الزیارات باب ۳۹ ص۱۱۴ ۔
(۲) بحار۹۸؍۱۱۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۹ ص۲۷۲۔
(۳) بحار۴۵؍۲۲۴ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۷ ص۸۷۔
امام حسین ؑ کی شہادت ہے۔
سوم:یہ ایسی خاص رحمت ِ الٰہی کی نزول کا مقام ہے کہ جس کا ثانی نہیں ہے۔
چہارم:یہاں سے فیض اوپر اہلِ آسمان کی طرف بھی جاتا ہے کیونکہ یہ فرشتوں کی معراج ہے(۱)۔
بابِ آب
اللہ تعالیٰ نے امام حسین ؑ کو چار قسم کے پانی عطا فرمائے کیونکہ اُن کو مباح پانی سے منع کیا تھا:
پہلا: حوضِ کوثر کو آپ ؑ کا حق قرار دی اور آپ ؑ کے اصحاب ؓ روح نکلنے سے پہلے ہی اُس سے سیراب کیا، جیسا کہ جناب علی اکبر ؑ جب زمین پر گرے تو چیخ کر کہا : اے بابا ! یہ میرے جد ِ بزرگوار نے مجھے ایسے جام سے سیراب کیا کہ جس کے بعد ہرگز میں تشنہ نہیں ہوں گا(۲)۔اِسی طرح آپ ؑ پر رونے والوں کے لئے یہ اُس وقت کے لئے قرار دی گئی کہ جس دن ’عطشِ اکبر‘ ( عظیم تشنگی)ہوگی، اور اُنہیں اُس( حوضِ کوثر) سے سیراب کیا جائے گا، چنانچہ مسمع کی روایت میں آیا ہے۔ کثیر روایات میںمتعدد اعمالِ حسنہ کی جزا میں یہ اثرذکر ہے مگر امام ؑ کی خصوصت یہ ہے کہ رونے والوں کے پینے سے’ کوثر‘ خوش ہوگی(۳)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۶۰ و ۶۲ ۔ کا مل الزیارات باب ۳۸ و ۳۹ ص۱۱۲ و ۱۱۴ ۔
(۲) بحار۴۵؍۴۴ ۔ مقاتل الطالبین ص۱۱۵ و ۱۱۶۔
(۳) بحار۴۴؍۲۹۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۳۲ ص۱۰۱۔
دوسرا:آبِ حیوان (زندگی رکھنے والا پانی)بہشت میں ہے، کہ جو رونے والوں کے آنسوئوں سے مل کر اُ س کی لذ ّت میں اضافہ کر دیتا ہے(۱)۔
تیسرا: آنکھوں کا پانی (آنسو)کہ جو اللہ نے امام ؑ کے حق میں قرار فرمایا، اِسی وجہ سے آپ ؑ کو ’صریع الدمع و قتیل العبرۃ ‘ (یعنی گرتے ہوئے آنسو والے اورآنسوئوں والے شہید)کہتے ہیں،نیز یہ آپ ؑ کے اسمِ مبارک ہی میں اثر رکھا ہے، بلکہ جو بھی اثر ہے وہ اُنہیں سے منسوب ہے یااُن کی مصیبت سے یا اُن کی قبرِ مقدّس سے یا اُن کی تربتِ پاک کی خوشبو سے منسوب ہے(۲)۔
چوتھا: ہروہ سرد اور لذیذپانی جسے دوست پئیں،اُس میں امام ؑ کا حق ہے کہ اُنہیں یاد کرکے اُن کے قاتلوں پر لعنت بھیجیں، جیسا کہ فرمایا:’شیعتی ما ان شربتم عذب ماء فاذکرونی‘ [ ترجمہ : اے میرے شیعو !جب بھی مزیدار پانی پیئو مجھے یاد کرنا]، امام صا ؑدق نے فرمایا:’میں نے ہرگز بھی کبھی ٹھنڈا پانی نہیں پیا مگر یہ کہ حسین ؑ کو یادنہ کیاہو‘(۳)۔پانی کی نسبت آپ ؑ کو یہ چار حقوق حاصل ہوئے شاید اُس میں یہ دو سبب ہوں:
امام حسین ؑ کو پانی سے منع کیاگیا
پہلا سبب:یہ کہ آپ ؑ چارحق پانی پر رکھتے تھے جن سے محروم کئے گئے۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۳۰۵ ۔ تفسیرامام حسن عسکریؑ ص ۳۶۹۔
(۲) بحار۴۴؍۲۷۹ ۔ کا مل الزیارات ص۱۰۸ و ۱۰۹۔
(۳) امالی صدوق مجلس ۳۹ ص۱۲۲( بحار۴۴؍۳۰۳ ۔ کا مل الزیارات ص۱۰۶ میں فرق سے منقول ہے )۔
اول:کہ جو تمام نوعِ بشر کے ساتھ مشترک حق رکھتے ہیں، چنانچہ سب بنی آدم پانی اورسبزہ میں شریک ہیں(۱)، اِسی وجہ سے مملوکہ نہروں سے پانی پینا جائز ہے چاہے مالک سے اذن نہیں لیا ہو، اور شاید یہی وجہ ہے کہ پیاسے کافر کو بھی پانی پلانا مستحب ہے، جیسا کہ روایت میں نقل ہوا ہے(۲)۔
دو م:وہ مشترک حق کہ جو تمام جانداروں کے ساتھ ہے، چونکہ ہر ذی روح کا پانی پر حق ہے، اِسی وجہ سے جب مملوکہ یا غیر مملوکہ جانوروں کو پیاس سے جان کا خطرہ ہو توتیمم واجب ہے۔
سوم: خاص حق کہ جو اہلِ کوفہ پر امام ؑ رکھتے تھے، کہ اُنہیں تین بار سیراب کیا،
الف :ایک دفعہ قحط کے سال میں اُن کے لئے بارش کی دعا کی تھی اور جس کی برکت سے بارش آئی(۳)۔
ب:دوسری بار جبکہ صفین میں بزورِ شمشیر پانی دشمن سے لے کر سب کے لئے عام کیا(۴)۔
ج:تیسری مرتبہ منزلِ قادسیہ میں حر ّ کے لشکر کو سیراب کیا(۵)۔
چہارم: خاص الخاص حق کہ جو آپ ؑ کا فرات پر تھا، کیونکہ آپ ؑ کی مادرِ گرامی ؑ کے مہر
--حاشیہ--
(۱) وسائل الشیعۃ ۷؍۳۳۱۔ (۲) فروع کافی ۴؍۵۷۔
(۳) بحار۴۴؍۱۸۷ ۔ (۴) بحار۴۴؍۲۶۶۔
(۵) بحار۴۴؍۳۷۶ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۷۹۔
میںتھی(۱)، اور اُنہوں نے اِن میں سے کسی حق کی بھی مراعات نہ کی،یہاں تک کہ شیر خوار بچے کے لئے ایک گھونٹ کی درخواست کی اور وہ دیکھ رہے تھے بچہ پیاس سے جاں بلب ہے مگر مثبت جواب نہ دیا، بعد میں اپنے لئے ایک گھونٹ پانی مانگا، نہ دیا! پیاس نے آپ ؑ کے چار اعضاء پر اثر کیاتھا
دوسراسبب: کہ تشنگی نے آپ ؑ کے چارا عضاء پر زیادہ اثر کیا تھا:
اول: دونوںلبِ مبارک مُرجھائے سے گئے تھے۔
دوم: جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، جیسا کہ زندگی کے آخری لمحوں میں مایوسی میں فرمایا: ’اسقونی قطرۃ من الماء فقد تفتت کبدی من الظماء‘(۲)[ترجمہ: پانی کا ایک قطرہ مجھے دیدو کہ میرا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے]۔
سوم: آپ ؑ کی زبان منہ میں زیادہ گُھمانے کی وجہ سے زخمی ہو گئی تھی(۳)۔
چہارم:آپ ؑ کی پاک آنکھوں میں تشنگی کے سبب تاریکی چھا چکی تھی، جیسا کہ روایت کے مطابق جناب جبرئیل ؑ نے جناب آدم ؑ کوبتلایا: اے آدم اگر تم اُسے اِس حالت میں دیکھو کہ جب وہ ’واعطشاہ‘ کہتا ہے تو اُس کی پیاس کا یہ عالم ہوگا کہ اُس کے اور آسمان
کے درمیان تشنگی کے سبب دھواں دھواں سا ہو چکا ہوگا(۴)، پس اللہ نے آپ ؑ کے ہر عضو کی
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۱۱۳ ۔ منا قب ص۳؍۱۲۸۔
(۲) ذریعۃ النجاۃ ص۱۳۵ ۔ منتخب طریحی ۲؍۱۳۴۔
(۳) بحار۴۵؍۵۶ ۔ مقتل الخوارزمی ۲؍۳۶۔
تکلیف کے عوض ایک پانی آپ ؑ کوعنایت فرمایا(جس کا بیان گزر چکا)۔ یہاں تک جب بات آ ہی گئی تو یہ عرض کرناہے: کہ اے شیعو! تم بھی آنسو بہانے میں بخل نہ کرو۔
باب اشجار
شجرہ ٔ موسٰی ؑ اورنخلِ عیسٰی ؑ
درختوں میں سب سے افضل جناب موسٰی ؑ والا درخت ہے، کہ جس سے ’انی انا اللّٰہ‘کی آواز سنی تھی، بعض روایات میں ہے کہ یہ قبرِ حسین ؑ کی جگہ ہے(۱)۔ درختوں میں ایک اور درخت حضرت عیسٰی ؑ سے منسوب ہے ، اِس کے لئے بھی روایت ہے کہ یہ کربلا میں ہے(۲)۔
باب بحار
جب امام ؑشہید ہوئے تو دریائوں پر مامور فرشتے نے صدا دی کہ اے اہلِ دریا لباسِ غم زیبِ تن کرو کہ فرزندِ نبی ؑ شہید ہو گئے (۳)۔
باب جبال
پہاڑوں میں سب سے افضل پہاڑ ’طورِ سیناء‘ ہے اور وہ روایات کے مطابق امام ؑ کی
قبرِ مبارک ہے، وہی ’کوہِ جودی‘ ہے کہ جس پر حضرت نوح ؑ کی کشتی رُکی تھی اور وہ مومنین کی
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۱۰۸ ۔ کا مل الزیارات با ب ۸۸ ص۲۶۹۔
(۲) بحار۹۸؍۱۱۶ ۔ تھذیب ص۶؍۷۳۔
(۳) بحار۴۵؍ا۲۲ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۱ ص ۶۸۔
نجات کا سبب تھی(۱)۔
اے بھائی! ہماری حالت بھی ایسی ہی ہوگی، جناب امیر المومنین ؑ کے مطابق ، کہ فرمایا: یہ دنیا تمہیں ایسی سخت حرکتیں دے گی کہ جیسے کسی کشتی کو دریا کے بیچوں بیچ ہوا حرکت دیتی ہے ، پس جو ڈوب گیاوہ ڈوب گیا اُس کا کوئی پُرسان نہیں اور جو نجات پا گیا وہ بھی خطرے میں ہے(۲) ، اور ہمیں معلوم نہیں کہ اگر ڈوبیں گے تو انجام کیا ہوگا، آتشِ جہنم یا نہ، لیکن اگر ہماری کشتی ولایتِ حسین ؑ کی جودی پر لنگر انداز ہوگئی تو نجات کی امید ہے۔
باب اِنس و جِن
انسانوں میں اللہ نے آپ ؑ کو وہ اصحاب ؓ عطا فرمائے کہ جن کے لئے خود حضرت ؑ نے فرمایا کہ ایسے اصحاب ِ ؓبا وفا کسی کو نہیں ملے(۳)، اور اُن کے حالات سے یہ بات ثابت ہے۔نیز امام ؑ کو ایسے خاص شیعہ عطا ہوئے کہ فطری و اضطراری محبت آپ ؑ سے رکھتے ہیں ، اور آپ ؑ کی عزا میں بے اختیار خود کو مارے ڈالتے ہیں ، اور بعض مقامات میں تو لوگ ماتم کرتے ہوئے آگ پر سے گزرجاتے ہیں اور قطعاً کوئی درد و الم محسوس نہیں کرتے۔
جنوں میں سے کچھ مدینہ سے نکلتے وقت مدد کے لئے آئے تھے ، امام ؑ نے فرمایا:
ہماری اور تمہاری وعدہ گاہ کربلا ہے، جب کربلا میں یہ پہنچے تو امام ؑ نے اُنہیں جنگ کی اجازت
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۰۹ا ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص ۲۶۹۔
(۲) نھج البلاغہ خطبہ ۱۸۷(فارسی ترجمہ فیض الاسلام ؒ)۔
(۳) بحار۴۴؍۳۲۹ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۹۳۔
نہیں دی(۱)، اِ ن میں سے کچھ جِن گیارہ محرم کی شب پہنچے دیکھا کہ سب ختم ہو چکا(۲)، اُن میں سے بعض جِن گریہ و زاری میں مشغول ہو گئے اور اِن کے کچھ مرد و زن کربلا ، مدینہ، بصرہ ، کوفہ، بیت المقدس، عوسجہ کے درخت کے نیچے ہیں اور اِنہوں نے امام ؑ کے قتل کی خبر دنیا میں جگہ جگہ پہنچائی اور اُن کی عورتیں راتوں کو امام ؑ کے جسمِ مطھرکے اطراف میں نوحہ خوانی وسینہ زنی کرتی ہیں ،اُن کے اشعار بھی مرثیہ کی کتابوں میں مذکور ہیں (۳)۔ بابِ وحوش و طیور
کچھ نے آپ ؑ کی شہادت سے قبل ہی گریہ کیا، جیسا کہ حضرت عیسٰی ؑ اور ہرن و شیر کے واقعہ میں ،جناب اسماعیل ؑ کی بھیڑوں اور حضرت ابراہیم ؑ کے گھوڑے کے واقعات ہیں (۴)۔اِسی طرح گیارہ محرم کی شب تمام صحرائی حیوانات گردنیں جُھکائے اِن شہداء ؑکے پاک جسموں کے گِرد جمع ہو کر صبح تک روتے رہے(۵)۔
پرندوں میں سے کچھ آپ ؑ پر رورہے تھے ، اور کچھ آپ ؑ کے جسدِ اقدس پر سایہ کررہے تھے، کچھ نے مدینہ آکر امام ؑ کی شہادت کی خبر آپ ؑ کی بیٹی اور اہلِ مدینہ کو پہنچائی اور کچھ پرندوں نے دوسرے پرندوں کو یہ خبر دی(۶)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۳۳۰ ۔ (۲) بحار۴۵؍۲۴۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۹ ص ۹۳ و ۹۴۔
(۳) بحار۴۵؍۲۳۳ ۔ ۲۴۱ باب نوح الجن ۔
(۴) بحار۴۴؍۲۳۴ ۔۲۴۵ و ۴۴؍۲۵۲۔
(۵) بحار۴۵؍۲۰۵ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۶ ص ۸۰۔ (۶) بحار۴۵؍۱۹۱۔ ۱۹۳۔
(باب اسب و شتر): امام ؑ کو رسولِ گرامی ؐ کا گھوڑاکہ جسے’مرتجز ‘کہتے تھے، ملا تھا او ر شاید اُسی کو ’ذوالجناح‘ کا نام بھی دیا گیا، یہ باوفا جانورتھا کہ جس نے اپنے مالک کی تاسی میں پیاس کے باوجودپانی نہ پیا(۱)، امام ؑ کی شہادت کے بعد ’الظلیمۃ الظلیمۃ من امۃ قتلت ابن بنت نبیہا‘ [ترجمہ : فریاد ہے! فریاد! اُس امت پر کہ جس نے اپنے نبی ؐ کی بیٹی کے بیٹے کو مار ڈالا]، کی فریاد کرتے ہوئے خیموں کی جانب روانہ ہواپھر امام ؑ کی شہادت اُن کے اہل و عیال تک پہنچائی اور جب دشمنوں نے اُسے پکڑنا چاہا تو اُ ن پر حملہ آور ہو گیا اور چند ظالموں کو واصلِ جہنم کیا، جیسا کہ روایت میں ہے (۲)۔
امام حسین ؑ سے ایک ناقہ بھی منسوب تھا کہ جس پر سوار ہو کر آپ ؑ نے صبحِ عاشورا خطبہ دیا تھا،پھر اُس سے اُتر کر عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اُ س کے زانو باندھ دیں(۳)، امام ؑ کی شہادت کے بعد اُس ناقہ نے اپنا سراِس قدر زمین پر مارا کہ جا ن دیدی(۴)۔
اوضاعِ دنیوی سے آپ ؑ کوعطا کردہ خصوصیات
اللہ تعالیٰ نے بہرحال دنیا کو اپنے دوستوں کے لئے نہیں چاہا مگر امام ؑ کو کچھ چیزیں
عطا ہوئیں کیونکہ آپ ؑ کو کھانے پینے سے منع کیا گیا اور آپ ؑ کے جسمِ پاک کو زمین پر پھینک
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۵۱ ۔ منا قب ۳؍۲۱۵۔
(۲) بحار۴۵؍۶۰ ۔ منا قب ۳؍۲۱۵۔
(۳) بحار۴۵؍۶۔۷ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۱۰۰۔ ۱۰۲۔
(۴) ذریعۃ النجاۃص۱۵۴ ۔
دیاتھا ، اِ ن تین باتوں کے عوض امام ؑ کو تین چیزیں عطا ہوئیں: ایک پانی پلانا، دوسرا کھانا کھلانا اور تیسر ا دائمی طورپر آبادکرنا۔
پانی پلانا: اِ س کا ثواب بہت زیادہ قرار دیا، خصوصاً امام ؑ کی قبرِ مبارک کے پاس عاشورا کی شب پانی دینا بہت زیادہ اجر و ثواب رکھتا ہے، چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ جو بھی عاشو را کی شب امام ؑ کی قبر کے پاس پانی پلائے ، ایسا ہے کہ جیسے اُس نے امام ؑ کے لشکر کو پانی پلایا ہو(۱) ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پانی پلانا کہ جس کا أجر تمام عبادات سے زیادہ ہے اگر سید الشہداء ؑ کی راہ میں ہو تواِ س کا ثواب دو گنا ہو جائے گا، اِسی لئے شیعہ حضرات جہاں کہیں بھی پانی پلاتے ہیںیا سبیل لگاتے ہیں سب کچھ امام ؑ ہی سے منسوب ہوتا ہے بلکہ گویا پانی کی سبیل ہی آپ ؑسے مخصوص ہو گئی ہے۔
کھانا کھلانا: مجالس میں کھانا کھلانا اِ س قدر عام ہے کہ ایّامِ عاشور اوغیرہ میںاتنا خرچہ جس کا حساب کتاب ممکن نہیں۔
دائمی طور پر آباد کرنا: پس حضرت زینب ؑ کی روایت کے مطابق، یہ عظیم قبّہ ہمیشہ آباد رہے گا اور اِ س کی زینت روز بروز بڑھتی ہی رہے گی(۲)، ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف عمارتیں بنتی رہتی ہیں تو اُن کاکام ختم بھی ہوجاتا ہے مگر اِ س حرم اور اُس کے صحن کے کام کبھی ختم ہونے
میں نہیں آتے۔ متوکل ملعون نے اِسے ویران کرنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا،
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۱۰۵ ۔ کا مل الزیارات باب ۷۱ ص ۱۷۴۔
(۲) بحار۴۵؍۱۸۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۶۱۔۲۶۶
لیکن بہت سے بادشاہوں نے اِ س کی تزئین و آرائش میں دلچسپی لی اور نقّاشی و آئینہ کاری وغیرہ سے اِ سے خوبصورت بنانا دینی فریضہ سمجھا۔مؤلف ؒ : کہتا ہے کہ میں نے پانچ سال سے ساٹھ سال تک کبھی یہ کام رُکتے ہوئے نہیں دیکھے ، مترجم شہرؒستانی: کہتا ہے کہ: حقیر نے بھی مختلف ایوان و صحن کی تعمیرات وغیرہ دیکھیں، خوبصورت پتھروں سے دیواریں اور رواقوں کی سجاوٹ میںبھی مشغول دیکھا ،آخر کلام۔
(مترجم حسینیعفی عنہ کہتا ہے کہ : آج ۱۴۳۷ھ میں اِ س بارگاہِ مقدس کا یہ عالم ہے کہ ’أربعینِ امام ؑ‘ کے موقع پر دنیا کا سب سے پُر ہجوم اجتماع یہاں ہوتا ہے لیکن شاید بی بی زینب ؑ کی حدیث میں حرمِ امام ؑکی عمارت سے مراد اُس کی تزئین وآرائش کے بجائے حرم کا زائرین سے آباد ہونا مراد ہو، واللہ اعلم بالصواب ۔)
آٹھویں قسم:حمل کے وقت سے قیامت
کے بعد تک خاص احترامات
امام ؑ سے متعلق چیزوں کے لئے خاص احترامات حمل کے وقت سے لے کر قیامت کے بعد تک، اور اِ س میں کچھ امور ہیں :
پہلا: آپ ؑ کے حمل کااحترام ، امام ؑ کی والدہ حضرت زہر ؑاکی نسبت کہ رسولِ اللہؐ ؐنے فرمایا: تمہاری پیشانی میں نور دیکھتاہوںاور جلد ہی اللہ کی حجت خلق پر،تم سے متولد ہوگا(۱)،
اور دعا پڑھتے اور بی بی ؑ پر پھونکتے، یا پانی پردعا پڑھ کر وہ پانی آپ ؑ پر چِھڑکتے تھے(۲)،اور
--حاشیہ--
(۱) و (۲) بحار۴۳؍۲۷۲ ۔ خرائج ۲؍۸۴۱۔۸۴۴۔
جناب زہرا ؑ فرماتی ہیں : مجھے اندھیری رات اور تاریک کمرہ میں بھی چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی ، شکم سے تسبیح و تقدیس کی آوازیں آتیں، اور خواب میں دیکھتی کہ دو نورانی لوگ مجھ پر دعا پڑھ رہے ہیں(۱)۔
دوسرا: آپ ؑ کی ولادت پر مبارکبادی میں بھی خاص احترام ملحو ظ رکھا گیا، جس کی پانچ قسمیں ہیں :
رضوان کہ جو خازنِ بہشت ہے ،اُسے حکم ملا کہ اِس مولود کی تکریم کی خاطر کہ جو محمد ؐکوعطا ہوا، بہشت کو سجائو اور معطر کرو ۔
حوروں کو حکم ملا کہ اِ س مولود کے احترام میںخود کو زینت دو اور ایک دوسرے کی زیارت کو جائو۔
فرشتوں کو حکم ملا کہ اِ س مولود کی تعظیم میںکھڑے ہو کر تسبیح، تقدیس، تحمید، تمجید اور تکبیر میں مشغول رہو۔
جبرئیل ؑ کو کہا گیا کہ زمین پر جائو، رسولِ اسلام ؐ کے پاس ،اِس طرح کہ ہزار گروہ فرشتے ہوں اور ہر گروہ میں ہزار ہزار فرشتے ابلق (دو رنگ کے)گھوڑوں پر سوار ہوں، اُن میں ہر ایک کے او پر قبّہ دُرّ و یاقوت کا ہو، اُن کے ہمراہ روحانی ہوں جن کے ہاتھ میں نور کے حربے ہوں، یوں اِس مولودِ سعید کی مبارکباد محمد ؐ کو دو(۲)۔ ذرا غوران کیفیات پر کیا جائے
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۷۲ ۔ خرائج ۲؍۸۴۱۔۸۴۴۔(۲) بحار۴۳؍۲۴۸ ۔ کمال الدین ۱؍۲۸۲۔ ملاحظہ ہوکہ پانچویں قسم مصنف ؒنے ذکر نہیں کی، کہ خازنِ جہنم کو حکم ہواکہ آتشِ جہنم کوبُجھادو، جیسا کہ روایت میں ہے۔
کہ کس قدر احترامات کا اہتمام کیا گیاہے۔
تیسرا:امام ؑ کانام رکھنے میں بھی خاص اہتمام ہوا، کہ جناب جبرئیل ؑ کو حکم ہوا کہ پیغمبر ؐ کو مبارکباد دینے کے بعد اُن سے کہنا کہ’اُس کا نام حسین ؑ رکھیں(۱)،پس آپ ؑ کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے رکھااور کتاب میں اُن کے اوصاف بھی ذکر فرمائے، آسمانوں میں امام ؑ کے خاص نام اللہ نے رکھے ہیں، جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔
چوتھا: آپ ؑ کی تعزیت کا بھی احترام کیا کہ فرمایا: امام ؑ کے نام کی خبر دے کر اُن سے تعزیت کرکے کہو: آپ ؐکی امت اِسے قتل کرے گی(۲)۔
پانچواں: امام ؑ کی دائی کا بھی احترام تھاکہ جو حوروں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی، اُسے بھیجا گیا اور وہ کچھ مزید حوروں کے ساتھ آئی تاکہ آپ ؑ کی خدمت کرسکیں(۳)۔
چھٹا: آپ ؑ کے گہوارہ کا بھی احترام تھاکہ جس کی برکت سے’ فطرس‘ فرشتے کی توبہ قبول ہوئی(۴)۔
ساتواں: آپ ؑ کے گہوارہ کا احتر ام ایک یہ بھی تھاکہ اُسے جُھلانے کے لئے کچھ فرشتے اور میکائیل ؑ مقرر ہوئے اور وہ آپس میں فخر کرتے تھے۔
--حاشیہ--
(۱) و (۲) بحار۴۳؍۲۴۹ ۔ کمال الدین ۱؍۲۸۳۔
(۳) ناسخ التواریخ ۴؍۲۶، مدینۃالمعاجز سے منقول ہے۔
(۴) بحار۴۳؍۲۴۹ ۔ امالی صدوق ؒ مجلس ۲۸ ص۱۱۸۔
آٹھواں: امام ؑ کے خواب کے ذکر کا بھی احترام تھا کہ جس پر جبرئیل ؑ موکل تھے اور کہتے :’ انّ فی الجنۃ نہراً من لبن‘[ ترجمہ: کہ یقیناجنت میں دودھ کی نہر ہے](۱)۔
نواں: امام ؑ کی شیر خواری بھی احترام کے لائق ہے کہ پیغمبرِ خدا ؐ کے انگوٹھے اور زبان سے غذا حاصل کرتے تھے (۲)کہ جو ماں کے دودھ سے زیادہ اعلیٰ ہے، کہ زیارت کے الفاظ ہیں: ’ غذتک ید الرحمۃ و رضعت من ثدی الایمان و ربیت فی حجر الاسلام‘ [ترجمہ:نبی ٔ رحمت ؐ کے ہاتھوں سے غذا کھائی، پستانِ ایمان سے دودھ پیا اور دامنِ اسلام میں پرورش پائی](۳)۔
دسواں:امام ؑ کے لباس کا بھی احترام ہے، اوریہ وہ مخصوص لباس ہے کہ جواللہ نے آپ ؑ کو عطا فرمایا، رسولِ اکرم ؐ نے امام ؑکو پہناکر فرمایا:یہ وہ لباس ہے کہ جو جبرئیل ؑکے نازک پروں سے بُنا گیا ہے(۴)۔
گیارہواں: آپ ؑ کی قبر کا احترام ہے ، کہ تمام انبیاء از آدم تا خاتم ؐ سب نے اُس کی زیارت کی اُس وقت کہ جب اُس میں امام ؑ کو دفن بھی نہیں کیا گیا تھا(۵)۔
بارہواں:امام ؑ کے آنسو کا احترام ہے، جیسا کہ ہرن کے واقعہ میں معروف ہے، اور
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۹۷ ۔ مناقب ۳؍۲۲۹۔ ناسخ التواریخ ۴؍۵۵۔
(۲) بحار۴۴؍۱۹۸ ۔ اصولِ کافی ۱؍۴۶۵۔
(۳) بحار ۹۸؍ ۳۶۰ ۔ (۴) بحار۴۳؍۷۱ ۲ ۔
(۵) بحار۴۴؍۰۱ ۳ ۔ کا مل الزیارات باب ۲۱ ص۶۷۔
آگے آئے گا(ان شا ء اللّٰہ)(۱)۔
تیرہواں:آپ ؑ کے خون کا احترام ہے، کہ خود بانی ٔ اسلام ؐنے اُسے ایک سبز شیشی میں جمع کیاکہ جو فرشتہ اِسی مقصد کے لئے آسمان سے لایا تھا(۲)۔
چودہواں: اُ س آنسو کا احترام کہ جو امام ؑ کے لئے نکلے، فرشتے اُنہیں جمع کرکے بہشت کے منتظمین کو دیتے ہیں تاکہ وہ آبِ حیوان (آبِ حیات)میں مِلا دیں(۳)۔
پندرہواں:اُس چہرہ کا احترام کہ جس پر امام ؑ کے لئے آنسو جاری ہوئے ہوں، کہ قیامت میں اُس چہرہ پر خواری و ذلت نہیں ہوگی(۴)۔
سولہواں: عزا وغیرہ کی مجالس کا احترام ہے، چنانچہ بعد میں آئے گا (ان شاء اللہ)۔
سترہواں: امام ؑ کی شفاعت کا بھی احترام ہے کہ جو نہ صرف قیامت میں ہوگی بلکہ پیدائش کے پہلے ہی دن ملائکہ کی شفاعت فرمائی، جیسا کہ فطرس اور دردائیل کے واقعے مشہور ہیں۔
اٹھارہواں: آپ ؑ کی قبرکی مٹّی کا احترام ، کہ جو خود قبرِ پاک کے پانچ ذراع سے چار فرسخ تک مختلف فضائل کی حامل ہے(۵)۔اِس زمین کو اللہ نے امام ؑ کے مدفن کے لئے
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۱۲ ۳ ۔ (۲) بحار۴۵؍۱ ۲۳ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۹۴۔
(۳) بحار۴۴؍۰۵ ۳ ۔ تفسیر امام عسکری ؑ ۔۳۶۹۔
(۴) بحار۴۴؍۲۸۱ ۔ تفسیر قمی ؒ ۲؍۲۹۲۔
(۵) بحار۹۸؍۱۱۰ ۔ کا مل الزیارات باب ۹۰ ص۲۷۲ ۔
اُس وقت منتخب کیا کہ جب دحو الارض ہوا( زمین بچھائی گئی تھی) جیسا کہ روایت میں آیا(۱)۔
زمینِ کربلا کی خصوصیات
اِس تربتِ مقدس کی چند خصوصیات ہیں:
پہلی:یہ کہ کعبہ مقدس سے زیادہ اعلیٰ و اشرف ہے، جیسا کہ روایت میں ہے(۲) بلکہ کچھ نے کہا ہے کہ نجف سے بھی اشرف ہے مگراما م علی ؑ کی مرقدِ پاک کے علاوہ،
دوسری: یہ کہ اِ س زمینِ مقدس کو اللہ نے کعبہ سے چوبیس ہزار سال پہلے خلق فرماکر اُسے پاک و مبارک کیا، چنانچہ معتبر روایات میں آیا ہے۔
تیسری: یہ زمین ہمیشہ سے مبارک اورپاکیزہ رہی اور رہے گی یہاں تک کہ اللہ نے اُسے بہشت کی زمینوں سے افضل قرار دیا، اُس میں اولیائے خدا کے مساکن و منازل ہیں، جیسا کہ روایت میں ہے(۳)۔
چوتھی: یہ زمین بہشت کی زمینوں سے آج افضل ہے(۴)۔
پانچویں: امام سجاد ؑ سے روایت ہے کہ جب قیامت کے زلزلے ہوں گے توکربلا کو
ایک نفیس و نورانی تربت کے ساتھ بلند کیا جائے گا اوربہشت کے بہترین باغوں میں رکھا جائے گا، اُس کا نور بہشت میں یوں جلوے بکھیر رہا ہوگا کہ گویاآنکھیں چکاچوندکرنے والا
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۳۳۱ ۔ (۲) بحار۹۸؍۱۰۶ و ۱۰۷ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۶۷ و ۲۶۸ ۔
(۳) بحار۹۸؍۱۰۷ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۶۸ ۔
(۴) بحار۹۸؍۱۱ ۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۷۱ ۔
درخشان ستارہ ہو، اور وہ زمین آواز دے گی : ’ میں ہی وہ پاکیزہ و مبارک زمین ہوں کہ جس کی آغوش میں حضرت سید الشہدا ؑء اوراہلِ جنت کے جوانوں کے سردار ؑہیں‘(۱)۔
چھٹی: اِس زمین کی مٹی سے بنی ہوئی تسبیح پر ذکر کرنا ستر گُنا زیادہ ثواب رکھتا ہے(۲)۔
ساتویں: اِس کی تسبیح کے دانے فقط پھرانے کا ثواب بھی تسبیح پڑھنے جیسا ہے(۳)۔
آٹھویں:جب بھی اِ س کی تسبیح ہاتھ میں لے کر صبح سویرے یہ کہے: ’اللّٰہم انی اصبحت اسبّحک اہلّلت واحمدک عدد ما ادیر بہ سبحتی‘[ترجمہ: پروردگارا!میں نے تیری تسبیح و تہلیل کے ساتھ صبح کی ،جتنی تسبیح میں پِھرارہاہوں اُس کے برابرمیں تیری حمد کرتا ہوں]، پس شام تک اُس کے لئے تسبیح پڑھنے کا ثواب لکھا جاتا ہے، اور اِسی طرح اگر رات کو سوتے وقت یہ دعا پڑھ کر یہ تسبیح اپنے سر کے نیچے رکھ لے تویہی خاصیت رکھتی ہے، جیسا کہ حدیث میں امام سجاد ؑ سے وارد ہے(۴)۔
نویں: سجدہ اِ س خاکِ مقدس پر سات حجابوں کو پھاڑ دیتا ہے (۵)، اِس سے مراد سات آسمانوں تک پہنچنا ہے یا مراد گناہوں کے حجابوں کا پھاڑنا ہے کہ جو اعمال کی قبولیت
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۰۸ ۱ ۔ کا مل الزیارات باب ۸۸ ص۲۶۸ ۔
(۲) و (۳) بحار۹۸؍۳۶ ۱ ۔ مصباح المتھجد طوسی ؒ ص ۶۷۸ ۔
(۴) بحار۹۸؍۳۶ ۱ ۔ بحار ۴۵؍۲۰۰ ۔ دعوات راوندی ص ۶۱۔
(۵) بحار۹۸؍۳۵ ۱ ۔ مصباح المتھجد طوسی ؒ ص۶۷۷ ۔
میں مانع ہوتے ہیں جیسا کہ معاذ بن جبل کی روایت میں ہے(۱)، نیز اِس خاک پر سجدہ زمین کے سات طبقات تک نور دیتا ہے(۲)۔
یہاں ایک سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ اِس سجدہ کی فضیلت خود اُس خاک کے سبب ہے یا خاک پر جو نقش وغیرہ بنا تے ہیں اور مختلف شکلوں میں ڈھال کر ’مہر‘ بنائی جاتی ہے اُس کے سبب ہے؟ بظاہر معاویہ بن عمار والی روایت سے مراد پہلی صورت ہے کہ امام صاد ؑق کے پاس ایک ’خریطہ‘ تھا (۳)، کہ جس میں کربلا کی تربت تھی جسے آپ ؑ نے اپنے سجدہ کی جگہ پر بچھایا اور اُس پر سجدہ کیا (۴)۔
دسویں:یوں تو مٹی اورخاک کھاناحرام ہے بلکہ اِس کے لئے روایت بھی ہے کہ یہ خنزیر کے گوشت کی مانند ہے(۵)، مگر قبرِ پاک کی خاک شفاء کے لئے چند شرائط کے ساتھ کھائی جا سکتی ہے، یہ شرائط اپنے مقام پر بیان ہوئے ہیں اور اُن میں اہم شرط سچی نیت ہے، دعا کا پڑھنا اور بند کرکے محفوظ کرنا تاکہ جنّات وشیاطین کے ہاتھ سے بچی رہے اور اُس کا اثر بھی زائل نہ ہو(۶)۔
--حاشیہ--
(۱) الاثنی عشریۃ فی المواعظ العددیہ ص ۲۴۶ ۔
(۲) من لا یحضرہ الفقیہ ص ۷۲ (باب ما یسجد علیہ)۔
(۳) خریطہ : یعنی تھیلی، پوٹلی ۔ (۴) بحار۹۸؍۳۵ ۱ ۔ مصباح المتھجد ص۶۷۷ ۔
(۵) بحار۹۸؍۱۲۹ ۔ کا مل الزیارات باب ۹۵ ص۲۸۵ ۔
(۶) بحار۹۸؍۲۸ ۱ ۔۱۳۲ ۔
گیارہویں :اِس خاکِ پاک کو خوف و دہشت سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے پاس اِسی نیت سے رکھے [خصوصاً شاید سفر میں](۱)۔
بارہویں:اِس خاک کو تجارت وغیرہ کے سامان میں رکھنے کے سبب سے برکت ہوتی ہے، جیسا کہ روایات میں ہے(۲)۔
تیرہویں : مستحب ہے کہ نومولود کی گُھٹی چٹانے میں اِس خاک کو استعمال کریں تاکہ وہ تمام آفات سے محفوظ رہے(۳)۔
چودہویں:جب بھی کسی میت کو قبر میں اُتاریں تو اِس تربتِ مقدس کو بھی اُس کے ساتھ رکھ دیں تاکہ میت عذاب سے محفوظ رہے(۴)، چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک عورت زناکار تھی اور پیدا ہونے والے بچوں کو جلا کر دفن کر دیتی تھی، جب وہ مری تو اُسے دفن کیا گیا ، مگر زمین اُسے قبول نہیں کررہی تھی اور اُسے باہر نکال دیتی تھی ، کئی بار جب یہی ہوا تو امام ؑ نے کہاکہ اُس کی قبر میں تربت رکھ دو، یوں زمین نے اُسے قبول کیا(۵)۔
پندرہویں:مستحب ہے کہ میت کے حنوط میں اِس خاک کو ملا دیں(۶)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۹۸؍۱۱۸ ۔ امالی طوسی ؒ ۱؍ ۳۲۵ ۔
(۲) بحار۹۸؍۱۲۵ ۔ کا مل الزیارات باب۹۲ ص۲۷۸ ۔
(۳) بحار۹۸؍۱۲۴ ۔ کا مل الزیارات باب ۹۲ ص۲۷۸ ۔
(۴) بحار۹۸؍۱۳۶ ۔ تہذیب ۶؍۷۶ ۔ مصباح المتہجد ص ۲۷۸۔
(۵) وسائل الشیعۃ۲؍۷۴۲ ۔ منتہی المطلب ۱؍۴۶۱ ۔ (۶) بحار۹۸؍۱۳۳ ۔ تہذیب ۶؍۷۶۔
سولہویں: اِس زمینِ مقدس میں دفن ہونا بغیر حساب کے بہشت میں داخل ہونے کا سبب ہے (۱)۔
سترہویں:جب بہشت کے فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیںتوحورالعین اُن سے درخواست کرتی ہے کہ تربتِ مقدس سے کچھ اُن کے لئے ہدیہ کے طور پر لائیں تاکہ وہ اُس سے متبرک ہوں(۲)۔
اٹھارویں: اِس تربتِ پاک کو ہر فرشتہ نے رسولِ اعظم ؐ کے لئے تحفہ کے طور پر اٹھایااور خود آ پ ؐ نے بھی اِسے اٹھایا او ر نیز امام حسین ؑ نے بھی اِسے لیا، جس کابیان آئے گا (انشاء اللہ)۔
انیسویں: اِس مقدس زمین میں امام ؑ کی شہاد ت سے پہلے دوسو انبیاء، دوسو اوصیاء اور دوسو ہی اُن کی اولاد دفن ہیں کہ جن میں سے ہر ایک شہید تھا، جیسا کہ معتبر روایت میںآیا ہے(۳)۔
بیسویں: اِس خاکِ مقدس کے سونگھنے کے سبب آنکھوںسے اشک جاری ہوتے ہیں، چنانچہ امام ؑ کی شہاد ت سے قبل رسولِ اسلام ؐ اور خود امام حسین ؑ کے ساتھ یہ پیش آیا، اور
یہ گریہ کے اسباب کے باب میں آئے گا (۴)۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۵۶ ۔ امالی صدؒوق مجلس ۲۸ ص ۱۱۷۔ (۲) بحار۹۸؍۱۳۴ ۔ مزار کبیر ص ۱۱۹۔
(۳) بحار۹۸؍۱۱۶ ۔ تہذیب ۶؍۷۲ ۔ کامل الزیارات باب ۸۸ ص ۲۷۰۔
(۴) بحار ۴۴؍۲۴۷ ۔ مثیرالاحزان ص ۹۔
اکیسویں:یہ خاک ِ پاک جہاں بھی تھی وہ شہادتِ امام ؑ کے وقت خون میں تبدیل ہوگئی ، جیسا کہ بہت سی روایتوں سے ظاہر ہے، اُنہیں میں سے ایک متفق علیہ روایت جناب امّ سلمیٰؓ والی ہے کہ رسولِ پاک ؐ نے اِس تربت کو خود معراج میں اٹھایا ، یا جبرئیل ؑ آپ ؐ کے لئے تحفہ کے طور پر لائے تھے،بہر صورت اُسے آپ ؐ نے بی بی امّ سلمیٰ ؓ کے حوالے وہ سرخ مٹی کی اور فرمایا: اِسے سنبھال کے رکھو، پس جیسے ہی وہ خون میں تبدیل ہو سمجھ لینا کہ میرے بچے کو مار دیا۔
امّ سلمیٰ ؓ نے کہا: پھر اُس مٹی کو میں نے ایک شیشی میں محفوظ کر لی ، اُسے روزانہ دیکھتی اور روتی تھی، پس جب روزِ عاشورا آیا تو صبح کو میں نے دیکھا اور وہی خاک وہاں پائی مگر جیسے ہی ظہر کے بعد اُسے دیکھا تو وہ خون میں تبدیل ہو چکی تھی، پس میںنے چیخ ماری، سلمیٰ کہتی ہے کہ : میں نے وہ شیشی دیکھی تو اُس میں خون جوش ماررہا تھا(۱)۔
بائیسویں: اُس زمین میں ہونا سبب بنتا ہے کہ دل میں احساسِ غم ہو، خصوصاً جب کوئی قریب جا کر دیکھتا ہے کہ امام ؑ کی قبرِ مقدس کے نزدیک پائوں کی جانب اُن کے فرزندجناب علی اکبر ؑ کی قبر ہے(۲)۔
تیئسویں: یہ تربت ہر اُس فرشتہ کو ملی کہ جو رسولِ گرامی ؐ کی زیارت کو پہنچا، اور جو پیغمبر ؑ
بھی کربلا آیا اُس نے یہ خاک لے کر اُسے سونگھا اور اپنے بدن پر ملی، چنانچہ یہ خاک تمام
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۲۳۰۔ ۲۳۲ ۔
(۲) بحار۹۸؍۷۳ ۔ کامل الزیارات باب ۱۰۸ ص ۳۲۴۔
انبیاء ؑ سے قیامت تک تعلق رکھتی ہے (۱)۔
نویں قسم:امام ؑ کی ہتکِ عزت کی کوشش کے
مقابل خاص احترامات
امام حسین ؑکے لئے خاص احترامات مقرر ہوئے ہیں، اُن بے احترامیوں کے عوض کہ جوآپ ؑ کے ساتھ روا تھیں،یا خود ہتک کرنے والے سے یہ احترام ہوایا ہتک کے ساتھ ہی کسی اورطرف سے یہ احترام ہوا، یوں کہ اُس احترام کی عزت ہتک کی ذلت پر غالب آجائے، اِس لئے کہ خدائے عزیز کو خود اپنے دوستوں اور اولیاء کے لئے ذلت پسند نہیں ہے کہ جس سے اُنہیں لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑے، تواگر اُن میں سے کوئی ضعیف و حقیر ظاہراً بھی نظر آتا ہے تو اُس کے مزاج کی بے نیازی سے وہ نظروں میں بزرگ و عزیزلگتا۔ اما م حسین ؑ اِس باب میں بھی منفرد نظر آتے ہیں۔چنانچہ سب سے پہلے جو امام حسین ؑ کی جان کا دشمن تھا وہ یزید ملعون کا باپ تھامگر اِس کے ساتھ ہی اُس نے یزید خبیث کو حکم دیا تھا کہ امام ؑ کا احترام کرے، اور اُسے وصیت کی کہ مجھے تجھ سے حسین بن علی ؑ کے بارے میں خوف ہے ، لہٰذا اگر تو نے اُن پرغلبہ پایا تو اُن کے حق کی رعایت کرنا کیونکہ وہ رسول اللہ ؐ کے دل کے ٹکڑے ہیں(۲)۔
مترجم(شہرستانی ؒ):کہتا ہے کہ بظاہر وہ خوفزدہ تھا کہ یوں لوگ اُس کے خلاف ہو
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۳۶ ۔ کامل الزیارات باب ۱۷ ص۶۱۔
(۲) بحار۴۴؍۳۱۱۔۳۱۲ ۔ امالی صدوق ؒ مجلس ۳۰ ص ۱۲۹۔۱۳۰۔
کر بغاوت نہ کردیںاور اُس کی سلطنت ختم نہ ہوجائے یہ اصلی ڈر تھا ورنہ خدا، رسوؐل کا خوف
وہاںکہاں تھا، تمام۔
نیز سب سے پہلے جسے یزید ملعون نے امام ؑ کے قتل کا حکم دیا تھا وہ مدینہ کا حاکم تھا، اُس نے کہا :میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اپنے ہاتھ حسین ؑ کے خون سے رنگین کرنے میں شرکت کروں(۱)، جب عمر سعد ملعون کو امام ؑ سے جنگ کا حکم ملاتو اُس نے اِس مضمون کے اشعار کہے:کہ جتنا بھی میں غور کرتا ہوں اپنے کو دو خطروں کے درمیان پاتا ہوں کہ یا ری کی حکومت کو چھوڑ دوں یا خونِ حسین ؑ بہا کر گناہگار بن جائوں، مگر مُلکِ ری میری آنکھوں کا نور اورمیری دیرینہ آرزوہے جبکہ حسین ؑ کا قتل آتشِ جہنم میں ڈالے جانے کا سبب ہے(۲)۔شمر ملعون نے بھی جب امام حسین ؑ کے قتل کے لئے لشکر کو جذبہ دِلایا تو یہی کہا : حسین ؑ ایک کریم حریف ہے اُس سے مارے جانے میں کوئی ننگ وعار نہیں ہے(۳)، جب وہ امام ؑ کے قتل کے لئے آیا تو احترام کرتے ہوئے کہا: تجھے میں قتل کرتا ہوں یہ جانتے ہوئے کہ میرا دشمن خدائے علی ّ اعلیٰ ہوگا(۴)، ابن زیاد ملعون کے پاس جو سپاہی امام ؑ کا سر لے کر آیا اُس نے یوں امام ؑ کی تجلیل کی:املاء رکابی فضۃ و ذہبا انی قتلت السیّدالمحجبا
قتلت خیر الناس اُمّاً و اباً
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۳۲۵ ۔ ارشاد مفید ؒؒ ۲؍۳۱۔ (۲) کشف الغمۃ ۲؍۴۸۔
(۳) بحار۴۵؍۵۱ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍ ۳۳۔
(۴) بحار۴۵؍۵۶ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍ ۳۷۔
ترجمہ: میرے تھیلوں کو سونے اور چاندی سے بھر دو ، کیونکہ میں نے بہت بڑے سردار کو مارا ہے، کہ جو ماں اور باپ دونوں طرف کی نسبت سب سے افضل ہے۔
پس اُس ملعون (ابن زیاد)نے اُس (سپاہی)کے قتل کا حکم دے دیا(۱)۔
جن لوگوں نے امام ؑ کے بدنِ مبارک پر گھوڑے دوڑائے وہ بھی ابن زیاد ملعون کے سامنے امام ؑ کے احترام میں تعریفی اشعار پڑھتے ہوئے آئے(۲)، یہاں تک کہ جس وقت یزید پلید کے سامنے امام ؑکاسرِ مبارک لایا گیا تو اُس نے بھی احترام کیا(۳)۔
البتہ وہ احترامات کہ جو ہتک کے ساتھ ہی واقع ہوئے،مگر ہتک کرنے والے کے احترام سے نہیں بلکہ کسی اور کے احترام سے، اِس میں بھی کچھ موارد ہیں:جس وقت ایک ملعون ظالم نے جسارت کرتے ہوئے کہا: یاحسین ابشر بالنار (یعنی اے حسین ؑ تمہیں آگ کی بشارت ہو)، اور فوراً ہی اُس کے گھوڑے نے ایک جست لگائی اور اُس ملعون کا پائوں رکاب میں اُلجھ گیااور گھوڑا اُسے آگ کی خندق میں گھسیٹتا ہوا لے گیا اور وہاںخندق میں اُسے پھینک دیا، اور وہ وہیں سے آتشِ دوزخ کی آغوش میں پہنچ گیا(۴)، ایک اور
دشمنِ دین نے جسارت کرتے ہوئے کہا: اے حسین ؑ !تو پیغمبر ؐ سے کس نسبت سے احترام رکھتا ہے؟اُسی وقت اُسے قضائے حاجت محسوس ہوئی اور وہ گیا ،وہاں اُسے سانپ نے کاٹا
--حاشیہ--
(۱) کشف الغمۃ ۲؍۵۱ ۔ مطالب السئوول ۷۶۔ (۲) بحار۴۵؍۵۹ ۔ لہوف ص۵۹۔
(۳) بحار۴۵؍۱۳۱ ۔ ارشاد مفید ؒ ۲؍۱۲۴۔
(۴) بحار۴۵؍۳۰۱ ۔ مناقب ۳؍ ۲۱۴۔
اور وہ وہیں اپنی نجاست ہی میںگر کر واصلِ جہنم ہو گیا(۱)۔ کسی دوسرے نے جسارت کرتے ہوئے کہا:کہ یہ پانی دیکھو کہ اِس پانی سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ پیاس سے تم مر جائو، امام ؑ نے فرمایا: پروردگارا! تو اِسے پیاسا مار ، پس وہ ایسی حالت کا شکار ہوا کہ العطش، العطش چیختا تھا،اور منہ سے پانی کی مشک لگا کر پانی بھی پیتا تھا مگر پیاس ختم نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ اسی تشنگی کی حالت میں مرگیا(۲)۔
دسویں قسم : امام حسین ؑکے طعام کے
تعلق سے خاص احترامات
آپ ؑ کے کھانے سے متعلق چند طعام احترام کے طور پر بہشت سے خاص تحفۃً بھیجے گئے،
اُن میں کھجور، بہہ اور سیب تھے بلکہ ہر طعام کہ جو پیغمبرِ اسلام ؐ ، امام علی ؑ ،بی بی فاطمہ ؑ اورامام حسن ؑ کے لئے بہشت سے لائے جاتے وہ غالباً امام حسین ؑ ہی کی فرمائش ہوتی یا اُنہیں کے لئے ہوتے تھے(۳)۔
گیارہویں قسم: امام ؑ کے لباس سے
متعلق خاص احترامات
امام ؑ کے لباس سے بھی خاص احترام و اہتمام تھا، کہ خدائے منّان نے حسنین ؑ کو کئی
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۳۰۲ ۔ مناقب ۳؍ ۲۱۵۔ (۲) بحار۴۵؍۳۱۰ ۔ مناقب ۳؍ ۲۱۴۔ (۳) بحار۴۳؍۳۰۷ و ۳۱۲۔
بار بہشت سے لباس کے سوغات بھیجے، اور اُن کے رنگ بھی مختلف تھے ، ایک سُرخ تھا اور دوسرا سبز، جس کا راز بھی معروف و عیاں ہے(۱)۔
نیز امام حسین ؑ کو اِس لباس کے علاوہ بھی مخصوص لباس سے نوازا گیا، جیسا کہ جناب اُمّ سلمیٰ ؓ روایت کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسولِ گرامی ؐ امام ؑ کو ایک ایسا لباس پہنا رہی ہیں کہ جو اُنہوں نے کبھی نہیں دیکھااور دنیاوی لباس جیسا بھی نہیں تھا،میں نے عرض کیا : یہ کیا ہے ؟فرمایا: یہ وہ تحفہ ہے کہ جو اللہ نے حسین ؑ کے لئے بھیجا ہے کہ یہ لباس جبرئیل ؑ کے نرم ونازک بالوں سے بُنا گیا ہے(۲)، اور امام ؑ کی شہادت اور آپ ؑ کے بدن سے لباس چھیننے کے بعد اللہ نے ایک بہشتی خلعت ملائکہ کے ذریعے آپ ؑ کو عطا فرمایا، جس کی تفصیل آئے گی (انشاء اللّٰہ) ۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۴۵۔ ۲۴۶ ۔ منتخب طریحی ۱؍ ۷۰۔۷۱ مجلس ۶۔
(۲) بحار۴۳؍۲۷۱ ۔