پہلا عنوان امام حسیؑن کی خصوصیات کے ذکر میں، عوالم ِ وجود سے روز ِ جزاء کی انتہاء تک، اور اُس کے سات مقاصد پہلا عنوان:اُن مقامات کے بیان میں ہے کہ جہاں امام ؑ حسین کا وجودِ اقدس اوّلِ خلقت سے لے کر روزِ جزاء کی آخر تک رہا، اُس میں چند مقاصد ہیں: پہلا مقصد:رسول اعظم ؐ کے نور کی خلقت کے بیان میں معلوم ہونا چاہئے کہ فلسفیوں نے اختلاف کیا ہے کہ واجب تعالیٰ سے صادر ہونے والی سب سے پہلی چیزکیا تھی؟ اِسی طر ح علم ِ کلام اور مذاہب کے ماہرین آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اور روایات بھی اِس بارے میںمتفق نہیں ہیں۔چنانچہ اکثر فلسفیوں کا کہنا ہے کہ پہلی مخلوق ’عقلِ اوّل‘ ہے ، جو کہ بسیط جوہر ہے اور ذات و فعل میں مادہ سے جدا ہے، پس واحد ہونے کے سبب ’واحد‘ سے صادر ہو سکتی ہے۔۔۔ [مترجم(حسینی عفی عنہ): یہاں کچھ مطالب خالص فلسفی ابحاث کے فاضل مصنّف ؒ نے پیش کئے ہیں مگر موجودہ مطالب سے اُن کے مربوط نہ ہونے اور فلسفی اصطلاحات کے سبب اُنہیں حذف کرکے حدیث سے مربوط کیا جا رہا ہے ]۔ ۔۔۔متعدد صحیح احادیث سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلی مخلوق ’حضرت محمّد مصطفی ؐ‘ کا نورِ پاک تھا اور عقل بھی آپ ؐ کے اشرف و محبوب ہونے کے سبب یہی کہتی ہے کیونکہ اللہ کی آپ ؐ پر انتہائی عنایت ہے۔بعض روایات میں ہے کہ پہلی مخلوق’ آپ ؐ کا اور ائمہ طاہرین ؑ کا نورِ اقدس ‘ہے۔بہر صورت کچھ بھی مانیں ، یہ بات طے ہے کہ خلق ہونے والی پہلی چیز میں ’امام حسین ‘ ؑ کا نور شامل ہیـ کیونکہ سارے ایک ہی نور ہیںجیساکہ اُن کے جدّ ؐنے فرمایا: حُسینٌ مِنّی و اَنا مِنْ حُسین [حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں] (۱)، دوسری خبر میں یوں ہے : أنا مِنْ حسین و حسینٌ مِنّی [میںحسین ؑ سے ہوں اور حسین ؑ مجھ سے ہے] (۲)، کہ اِس پاک نور کی شرافت کے بیان میں اِس دوسری حدیث کا مرتبہ پہلی حدیث سے بڑھ کر ہے۔ امام ؑچونکہ پہلی مخلوق ہیں اور باقی تمام مخلوقات اُن کی تابع اور طفیلی ہیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ جمیع مخلوقات انبیا ؑء، ملائکہ، افلاک، جن و انس، شیطان بہشت، جہنّم، جمادات، عناصر، معادن، نباتات، حیوانات، ماہ و خورشید ،نہ صرف یہ دنیا بلکہ تمام عوالم آپ ؑ پر گریہ کُنا ں ہوں جیسا کہ چند روایات میں ہے کہ : اللہ نے ہزار ہزار عالم اور ہزار ہزار آدم بنائے (۳)، اور یہ بُکاء امام ؑ کی شہادت کے بعد ہی نہیں بلکہ پہلے بھی تھا، چنانچہ تین شعبان کی زیارت میں امام مہدی ؑ سے منقول ہے کہ ’ بَکَتْہُ السمائُ و مَنْ فِیہا والارضُ و مَنْ عَلیْہا و لَمّا یَطائُ لَابَتَیْہَا‘[زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے ، سب نے آپ ؑ پرگریہ کیا جبکہ ابھی آپ ؑ کی پیدائش بھی واقع نہیں ہوئی تھی] (۴)۔ آپ ؑ چونکہ پہلی خلقت میں خشوع و رقّت کے مظہررہے ہیں ،لہٰذا عالم میں جو بھی
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۷۱ ۔ کامل الزیارات باب ۱۴ص۵۳۔ (۲) بحار۴۳؍۲۹۶ ۔ مناقب ۳؍۲۲۶۔ (۳) بحار۵۷؍۲۱ ۳ ۔ خصال ۲؍۶۵۲ توحید ص ۲۷۷۔ (۴) بحار۹۸؍۳۴۷ ۔ مصباح المتھجدص۷۵۸ (ولادت امام حسین ؑ)۔ خشوع ورقّت ہے وہ امام ؑ ہی کا حصہ ہے ، بلکہ یوں کہوں کہ : وہ خنجر ، شمشیر وسِناں، تیر و تبرکہ جو آپ ؑ کے جسمِ نازنین پر پڑ رہے تھے ، وہ بھی آپ ؑ پر گریہ کر رہے تھے۔ حتّٰی کہ آپ ؑ کے قاتلین و ناصبین بھی اپنی فطرتِ اصلیہ کے تحت حالِ امام ؑ پر گریہ کناں تھے، جبکہ اپنی فطرتِ اصلیہ کو صفتِ ظاہریہ سے بدل کر اُنہوں نے اپنے آپ کو آتشِ جہنّم کا دائمی حقدار بنا لیا تھا، لیکن جونہی وہ اِس(تبدیلی) سے غافل ہوتے رو پڑتے تھے، بالکل اُن کفّار کی طرح کہ جو دل سے تو تصدیق کرتے تھے مگر زبان سے انکاری تھے ’ وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُم ْ ظُلْماً وَّ عُلُوّاً [ طغیان کے سبب وہ انکار تو کرتے ہیںمگر اُس پردل سے یقین رکھتے ہیں](۱)۔ جیسے زنادقہ ودہریے ہیں کہ جونہی اپنی دشمنی سے غافل ہوتے ہیں ، توحید کا اقرار کرتے ہیں، بالکل اِسی طرح آپ ؑ کے دشمن جب غافل ہوتے تھے گریہ کرتے تھے، وہ مصیبت اِس قدر عظیم تھی کہ دشمنی کے ساتھ ساتھ ، قتل یا زخمی کرتے ہوئے، لُوٹتے ہوئے روتے تھے، جیسا کہ ابن سعد ملعون نے جب امام ؑ کے قتل کا حکم دیا تو رو پڑا(۲)، وہ ملعون کہ جو فاطمہ ؑ بنت حسین ؑ کے گوشوارے چھین رہا تھا گریہ کررہا تھا(۳)،یزیدِ پلید اپنی تمام شقاوت کے باوجود جب اُس ملعون کی نگاہ اسیروں پر پڑی تو اُس پر رقّت طاری ہوئی، کہا: بُرا ہوابن مرجانہ کا! (۴)
--حاشیہ--
(۱) سورۃ النمل آیت ۱۴۔ (۲) بحار۴۵؍۵۵ ۔ تا ریخ طبری ۵۳؍۲۲۸۔ (۳) بحار۴۵؍۶۰ ۔ (۴) بحار۴۵؍۱۳۶ ۔ ارشاد مفیدؒ ۲۳؍۱۲۵۔ دوسرامقصد: خلقت کے بعد سے ولادت تک آپ ؑ کے نور کی خصوصیات پس ہم یہ کہتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ خود بالذات واحد تھا ، اُس کے ساتھ کوئی نہ تھا، پس اُس نے پہلے جناب محمّدؐ کانورِشریف خلق فرمایا اور اُس سے علی ؑو فاطمہ ؑ و حسن ؑ اور حسین ؑ کے مقدّس انوار کولیااوراُس نور شریف کو مختلف مقامات و عوالم میں رکھا۔ جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن عوالم میںبعض عرش کی تخلیق سے پہلے ہیں ، کچھ اُس کے بعد اور خلقتِ آدم ؑ سے قبل، کچھ اُس کے بعد،یہ کبھی عالمِ انوار میں ، کبھی نوری اشباح میں، کبھی سایہ میں ، کبھی ذرّات میں ، کبھی بہشتی نور میں ، کبھی عمودِ نور میں، کبھی پشتِ آدم ؑ میں ، کبھی اُن کی اُنگلیوں میں، کبھی اُن کی پیشانی میں، کبھی اجداد و جدّات کریمہ کی پیشانیوں میں، کبھی عرش کے سامنے، کبھی عرش کے اوپر، کبھی عرش کے نیچے، کبھی عرش کے اطراف میں، کبھی بارہ حجابوں میں ، کبھی نور کے دریائوں میں ، کبھی نورانی خیموں میں۔ اِ ن عوالم میں رہنے کی مدّتیں بھی معیّن ہیں ، مثلاً عرش سے پہلے قیام کی مدّت چار سو بیس ہزار سال ہے، عرش کے اطراف میں رہنے کی مدّت پندرہ ہزار سال خلقتِ آدم ؑ سے پہلے، عرش کے نیچے رہنے کا وقت بارہ ہزار سال ہے خلقتِ آدم ؑ سے پہلے(۱) ، یہاں اِس سے زیا دہ تفصیل مناسب نہیں ہے۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ج۲۴، مزید تفصیلات کے لئے مفصّل کتب کی طرف رجوع کریں۔ [مترجم (شہرستانی ؒ) کہتا ہے:اِ ن اسرار ومطالب کی تفصیل کی معرفت ہم سے مانگی نہیں گئی ہے۔ ہم سے جو مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اجمالی طور پر ہم اِ ن چیزوں کی تصدیق کرکے تسلیم کرلیں۔ورنہ اِ س نور کی حقیقت کا علم، مختلف عوالم میں اُس کے مقامات خود اُنہیں سے مربوط ہیں ، بعض فلسفیوں کا اپنی عقل سے تطبیق کرنا صحیح نہیں ہے اور اِ س سلسلہ میں غور و خوض خطرہ کا سبب بن سکتا ہے۔ عفی عنہ] یہاں مقصد یہ ہے کہ : ائمّہ طاہرین ؑ کے انوار میں سے امام حسین ؑ کے نور ِ پاک کی خصوصیت تمام عوالم میں بیان کی جائیں، چنانچہ میں کہتا ہوں کہ اِ س نور کا عالمِ جمع میں خصوصیت: نور ِاوّل ؐسے خاص نسبتِ تشریفیہ ہے جیسا کہ فرمایا: حسینٌ مِنّی وأنا مِنْ حسین۔(۱)، اور عالمِ فرق میں : اِس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ غم و اندوہ کا سبب بنتا ہے، چنانچہ حضرت آدم ؑ کے واقعہ میں ہے، کہ جب اُن کی انگلیوں میں انوارِ خمسہ ؑ کا ظہور ہوا تو امام حسین ؑ کے نور کا ظہور اُن کے انگوٹھے میں ہوا اور جب حضرت آدم ؑکی نگاہ اُس پر پڑی توبے اختیار مغموم محزون ہو گئے(۲)۔ یہ اثر آج تک ہے کہ اگر کسی کو بہت زیادہ ہنسی آرہی ہو اور وہ انگوٹھے پر نظر کرے تو حزن اُس پر غالب آجائے گا۔حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں جب اُنہوں نے اشباحِ خمسہ ؑ میں سے اُن جناب ؑ کی شبح دیکھی تو محزون ہو گئے(۳)،اِسی طرح جب امام ؑ کا اسمِ مبارک
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۷۱ ۔ کامل الزیارات باب ۱۴ص۵۳۔ (۲) بحار ۱۱؍۱۵۰۔۱۵۱ (یہ بات معلوم رہے کہ مجھے انگلیوں کا ذکر نہیں ملا)۔ (۳) بحار ۳۶؍۱۵۱۔ سُناتو مغموم ہوگئے۔ یہاں تک کہ اگر کسی چیز کو آپ ؑ سے نسبت دی جائے تو وہ حزن کا سبب بن جاتی ہے، جیسے وہ میخ( کیل) کہ جو امام ؑ سے منسوب تھی وہ حضرت جبرئیل ؑنے کشتی ٔ نوح ؑ میں لگائی تواُس سے ایک نور چمکا اوریکایک اُس سے ایسی رطوبت ظاہر ہوئی کہ جو خون جیسی تھی یوں حضرت نوح ؑ محزون ہوئے اور نوحہ کیا(۱)۔ اِسی طر ح جب یہ نورِ شریف ؑ اصلاب ِ طاہرہ اور ارحام ِ مطہرہ میں منتقل ہوتا تو اُس کا اثراُس کے حامل کی جبین پرنور کی صورت میں ظاہرہوتا تھا حالانکہ وہ خود اُس نور کے حامل نہ تھے۔ جب حضرت زہراء ؑ امام حسن ؑ کے نور سے حاملہ ہوئیں تو چونکہ بی بی ؑ خود اُس نور سے تھیں توکوئی الگ سے نور ظاہر نہیں ہوا، لیکن جب امام حسین ؑ کے نور سے حاملہ ہوئیں تو بی بی ؑ کی مبارک پیشانی پرخاص نورظاہر ہوا، جیسا کہ رسولِ گرامی ؐ نے اُس کی خبر دی (۲)اور بی بی ؑ نے خود فرمایا:’جب میں حسین ؑ سے حاملہ ہوئی توتاریک شب میں بھی چراغ کی محتاج نہیں تھی(۳)،یوںامام حسین ؑ کا نور دوسرے انوار پر غالب آجاتا تھا۔ نیز یہ نور سورج کی روشنی پر بھی غالب آجاتا تھا، جیسا کہ امام ؑ کے قتل کے وقت موجود بعض لوگوں سے منقول ہے کہ: امام ؑ کے نورِ جمال نے ہمارے اذہان کواُن کے قتل سے روکے رکھا تھا(۴)، جبکہ اُس وقت سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔
--حاشیہ--
(۱) بحار ۴۴؍۲۳۰۔ (۲) بحار۴۳؍۲۷۲ ۔ خرائج ۲؍۸۴۳۔ (۳) بحار۴۳؍۲۷۳ ۔ خرائج ۲؍۸۴۴۔ (۴) بحار۴۵؍۵۷ ۔ لہوفص ۵۵۔ اِسی طرح نورِ امام ؑ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا تھاجیسا کہ اُسی شخص نے کہا : کہ میں نے کوئی ایسا لاشہ خاک و خون میں نہیں دیکھا کہ جو حسین ؑ سے زیادہ نورانی ہو(۱)، پس معلوم ہوا کہ خاک و خون کا پردہ اُس نورِ پاک کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکاتھا۔ تیسرامقصد:امام ؑ کی ولادت کے بعد آپ ؑ کے مقامات کی خصوصیات پس میں کہتا ہوں:ولادت کے بعد پہلا مقام رسولِ اسلام ؐ کے دستِ مبارک تھے، جیسا کہ منقول ہے کہ آپؐ حُجرے میں کھڑے ولادت کا انتظار کر رہے تھے ، پس جب امام ؑ کی ولادت ہوئی تو آپ ؑ سجدہ کی انداز میں تھے کہ پیغمبرِ اسلام ؐ نے جناب اسماؓء کو آواز دی کہ میرے بچّے کو لے آئو، عرض کی ابھی میں نے اُسے پاک نہیں کیا ہے، فرمایا: تم اُسے پاک کروگی کہ جسے اللہ نے پاک کیا !پس وہ لے آئیں جبکہ اُنہیں ایک دبیز کپڑے میں لپیٹے ہوئی تھیں، آپ ؐ نے امام ؑ کو ہاتھوں میں لیا اور اُن کی طرف نظر کی اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا: ’مجھ پرکس قدر سخت ہے اے ابا عبداللہ!‘(۲)۔ اور اُس کے بعد کبھی جناب جبرئیل ؑ کے دوش پراو رکبھی اُن کی گردن پر، کبھی دوشِ نبی ؐ
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۵۷ ۔ لہوفص۵۵۔ (۲) بحار ۴۳؍۲۳۹ و ۲۵۶(مصنف ؒنے دوحدیثیں ایک ہی حدیث میں جمع کردیں)۔ پر،کبھی آپ ؐ کے سینہ اور پشت پر(۱)، کبھی اُنؐ کے ہاتھوں پرجب آپ ؐ امام ؑ کو اُٹھاتے تھے ؐ تاکہ امام ؑکے منہ کا بوسہ لیں، کبھی امام ؑکوہاتھوں پر اُٹھا تے کہ اپنے اصحاب کو دکھائیں اوراُن کے لئے نصیحت فرمائیں(۲)، کبھی سجدے کی حالت میںنانا ؐ کی پشت پر سوار ہوجاتے (۳)، اورکبھی حضرت علی ؑہاتھوں پراُٹھاتے اور رسولِ گرامی ؐ امام ؑ کے تمام بدن کے بوسے لیتے (۴)، امام حسین ؑ کی آخری منزل اِس دنیا میں (نانا ؐ کی نسبت سے) رسولِ اکرم ؐ کا سینۂ پاک اور احتضار کا عالم ہے، جبکہ آپ ؐ امام حسین ؑ کو چومتے جاتے اورفرماتے جاتے کہ:’یزید کا مجھ سے کیا واسطہ!؟ خدا اُسے مبارک نہ کرے‘ (۵)۔ چوتھامقصد:شہادت کے بعداوردفن سے پہلے امام ؑ کے مقامات کی خصوصیات خاص شہادت کی کیفیت : جب بھی کوئی نبی یا امام شہید کیا جاتا ،تو و ہ یا تلوار سے یا زہر سے یا اپنے گھریا شہر میں،یا محراب یا طشت میں مارا جاتا ، کسی کوبے آب و گیاہ صحراء میں خاک پر شہید نہیں کیا گیا، اے آقاآپ ؑ کی مصیبت کس قدر عظیم ہے! شہادت کے بعد، آپ ؑ کے جسدِ مبارک کو پانچویں آسمان پر لے جایاگیا اور دوبارہ
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۳؍۲۶۸ ۔ امالی صدوؒقمجلس۶۸ص۳۶۱۔ و بحار۴۳؍۲۷۵ ۔ارشادمفیدؒ ۲؍۲۵(مترجمؒ)۔ ؐ (۲) بحار۴۳؍۲۶۲ ۔ امالی صدوؒق مجلس ۸۷ص۴۷۸۔ (۳) بحار۴۳؍۸۳ ۲ ۔ مناقب ابن شہرآشوب ۳؍ ۱۵۶ ۔ (۴) بحار۴۴؍۲۶۱ ۔ کامل الزیارات باب ۲۲ ص۷۰۔ (۵) بحار۴۴؍۲۶۶ ۔ مثیرالاحزان ص۱۲۔ زمینِ کربلاء پر واپس لایا گیا، وہاں تین دن تک پڑا رہا اور آپ ؑ کا سرِ مبارک کبھی ہاتھوں پر(۱)، کبھی نیزے پر رہا(۲)، کبھی درخت پر لٹکایا گیا(۳)، کبھی یزید ملعون کے گھر کی دہلیزپر (۴)، کبھی شام کے دروازے پر(۵)، کبھی ابن زیاد ملعون کے سامنے طَبق میں(۶)، کبھی یزیدپلید کے پاس طشت میں (۷)، اور اُسے شہر بہ شہر ،دیار بہ دیارکربلا سے شام تک پھرایا گیا۔ بعض نے کہا کہ : شام سے مصراور مصر سے مدینہ تک، یا شام سے کربلا یا شام سے آسمان کی طرف لے جایا گیا (۸)۔ مترجم (شہرستانی ؒ)کہتا ہے کہ:فاضل مصنّف ؒ شاید بھول گئے کہ شمرِملعون کے گھر کے مرتبان میں(۹)، خولی ملعون کے گھر کے تنورمیں (۱۰)، راہبوں کے دیر میں (۱۱)، پاسبانوں کے صندوق میں(۱۲)، لاحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلّا بِاللّٰہ۔
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۵؍۱۰۷ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍۱۱۸ ترجمہ کے ساتھ۔ لہوف ص۶۲۔ (۲) بحار۴۵؍۱۲۱ ۔ ارشادمفیدؒ ۲؍ ۱۲۲۔ (۳) مناقب ۳؍۲۱۸۔ (۴) بحار۴۵؍۴۲ ۱ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۷۳۔ (۵) بحار۴۵؍۳۶ ۱ ۔ مقتل خوارزمی ۲؍۶۳۔ (۶) بحار۴۵؍۱۵ ۱ ۔ لہوف ص۶۳ و طَبق کاذکر نہیں ملا بلکہ دوسری روایت میں’طشت ‘ہے۔ (۷) بحار۴۵؍۵۷ ۱ ۔ احتجاج طبرؒسی ۲؍۳۴۔ ( ۸) بحار۴۵؍۴۴ ۱ ۔ مثیر الاحزان ص۸۵۔ (۹)شمرملعون کے گھر کا مرتبان (اجانہ)مقتل کی کتابوں میں نہیں ملا۔ (۱۰) بحار۴۵؍۱۲۵ ۔ مثیر الاحزان ص ۶۶،روایت میں کلمہ ’اجانہ‘ (مرتبان) ہے۔ (۱۱) بحار۴۵؍۱۸۴ ۔ خرائج ۲؍ ۵۷۸۔ (۲) بحار ۴۵؍۱۷۲۔ پانچواںمقصد:عالمِ برزخ میں امام ؑ کے مقامات کی خصوصیات حدیث میں ہے کہ: آپ ؑ عرش کے دائیں جانب ہیں او راپنی شہادت کے مقام کو دیکھتے ہیں ، اپنے زائر کو اور اُن کے باپ کو ناموں سے پہچانتے ہیں ، اُن کے درجات کاعلم تم سے زیادہ رکھتے ہیں ، اپنے اوپر گریہ کرنے والوں پر نظر کرتے ہیں اور اُن کی مغفرت کی دعاء کرتے ہیں،پھر اپنے آبائو اجداد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، پھر یوں فرماتے ہیں:اے گریہ کرنے والوں اگر یہ تمہیں پتہ چل جائے کہ خدا نے تمہارے لئے کیا اجر رکھا ہے تو تمہاری خوشی تمہارے غم پر غالب آجائے(۱)۔ چھٹا مقصد: روزِ محشر امام ؑ کے مقامات کی خصوصیات روزِ محشر اور موقفِ اکبر کے بارے میں کئی روایات ملتی ہیں کہ امام حسین ؑ ایک خاص مجلس میں سایۂ عرش کے نیچے ،اپنے زوّار اور گریہ کرنے والوں سے ہنس بول رہے ہوں گے اورہر مشکل سے محفوظ ہونگے۔ اُن کی ازواج بہشت سے اُنہیں پیغام دیں گی کہ ہم آپ کی مشتاق ہیں مگر کوئی اِس مقدّس مجلس کو چھوڑ کر اُن کے پاس جانے کو راضی نہ ہوگا(۲) ، روزِ محشر آپ ؑ کا مخصوص مقام ہوگاکہ جب آپ ؑاپنے پائوں پر ایسے کھڑے ہوں گے کہ امام ؑ
--حاشیہ--
(۱) بحار۴۴؍۲۹۲ ۔ کامل الزیارات باب ۱۰۸ص۳۲۹۔ (۲) بحار۴۵؍۲۰۷ ۔ کامل الزیارات باب ۲۶ص۸۱۔ کے مبارک جسم پر سر نہ ہوگاخون رگوںسے جاری ہوگا، ایک محشر بپا ہوگااور جب بی بی ؑسیّدہ یہ کیفیّت دیکھیں گی توایک ایسی چیخ ماریں گی کہ وہاں موجود لوگ پریشان ہو جائیں گے(۱)، یہ مطالب اپنی جگہ تفصیل سے آئیں گے۔(اِنْشَآئَ اللّٰہ تَعَالیٰ) ٍٍساتواںمقصد : بہشت میں امام ؑ کے مقامات کی خصوصیات رسولِ اسلامؐ نے فرمایا:’ بہشت میں تمہارے لئے وہ مراتب ہوں گے کہ جو فقط منزلِ شہادت تک پہنچنے والے حاصل کرسکتے ہیں‘(۲)، اور آپ جناب ؑ بہشت کی زینت ہیں(۳)، گویا آپ ؑ بہشت میں ہر جگہ ہوں گے اور ہر جگہ آپ ؑ کی ملکیت ہوگی۔
--حاشیہ--
(۱) ثواب الاعمال ص۲۵۸۔ (۲) بحار ۴۴؍۳۲۸۔ (۳) بحار ۴۳؍۲۷۵۔ ارشادِ مفیدؒ ۲؍۱۳۱۔